اُلجھے سلجھے مسائل

پشاور کے مسائل کہاں سے شروع اور کہاں سے ختم ہوتے ہیں‘ یہ طے کرنا بھی آسان نہیں رہا کیونکہ ایک سے زیادہ ادارے اور ایک سے زیادہ فیصلہ سازوں سے الگ الگ ترجیحات نے ’اُلجھے سلجھے مسائل‘ کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے! شہری سہولیات کے فقدان کی تکنیکی وجوہات کے علاو¿ہ بھی چند ایسے محرکات ہیں‘ جن کی معمولی توجہ سے اصلاح ممکن ہے۔ اِس تناظر (تمہیدی بیان) کا مقصد شہری سہولیات کے معیار اور صورتحال بارے معلومات کو ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے اُس حکم تک لیجانا ہے جو ’بائیس ستمبر دوہزار بیس‘ کے روز جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل بینچ نے دیا تھا۔ مذکورہ عدالتی حکم میں صوبائی حکومت کو بھی ہدایت کی گئی کہ ضلع پشاور کے شہری و دیہی علاقوں سے گزرنے والی نہروں کی خاطرخواہ صفائی اور اِن میں ماضی کی طرح صاف پانی رواں دواں رکھنے کا بندوبست کرے۔ اِس سلسلے میں سیکرٹری ایری گیشن اور دیگر متعلقہ اہلکاروں کو کہا گیا تھا کہ نہروں کو آلودہ کرنے کے جملہ اسباب معلوم کریں اور اُنہیں رفع کرنے میں کسی بھی قسم کے سیاسی دباو¿ میں نہ آئیں۔ عدالت عالیہ کے احکامات انتہائی واضح تھے جس میں ’سیاسی دباو¿‘ کا اشارتاً ذکر کرنے کا مقصد ایک نیا تنازعہ (پنڈورا باکس) نہ کھولنا تھا حالانکہ عدالت نے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کو اِس ایک جملے میں جو حکم دیا ہے اُس میں پشاور کے سبھی مسائل کو سمیٹ کر‘ سمو کر‘ پیش کیا گیا تھا گویا دریا کوزے میں بند کر دیا گیا لیکن افسوس کہ 2 ماہ گزرنے کے باوجود بھی صورتحال (زمینی حقائق) جوں کے توں برقرار ہیں اور اِس عدالتی حکم پر صرف اس قدر پیشرفت ہوئی ہے کہ متعلقہ ترقیاتی ادارے (پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اَے)) کے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) کی سربراہی میں قائم کمیٹی جس میں واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز کمپنی‘ انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی‘ پی ڈی اے اور متعلقہ ٹاو¿ن میونسپل اتھارٹیز کے حکام کو شامل کیا گیا جنہوں نے اِس ضرورت پر اتفاق کیا ہے کہ پشاور سے گزرنے والی نہریں جو کہ یہاں کے ماحولیاتی تنوع اور خوبصورتی کے علاوہ گردونواحی علاقوں میں زرعی اراضی کے لئے آبپاشی کا ذریعہ بھی ہیں‘ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور کے مسائل بارے الگ الگ جاری کوششوں کو مربوط کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر عدالت عالیہ کے حکم پر مختلف ادارے نہروں کی صفائی اور نکاسی¿ آب کا متبادل نظام وضع کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہی ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت جلد صوبائی حکومت سے کروڑوں روپے طلب کئے جائیں گے تو دوسری طرف پشاور کے لئے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے تحت مختص ہونے والے مالی وسائل کے بارے ’ایکشن کمیٹی‘ اور ’اَحیائے پشاور‘ کے نام سے سوچ بچار اور تجاویز و ترجیحات مرتب جیسی کوششیں ایک دوسرے سے متصل و قریب ہونی چاہئیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پشاور کے مسائل کا حل‘ شہری سہولیات میں حسب آبادی اضافہ اور اِن سہولیات کے معیار میں بہتری جیسے اہداف (حکمت عملیاں) مقرر کرتے ہوئے فیصلہ ساز اپنی اپنی سیاسی و ذاتی ترجیحات کو بالائے طاق رکھیں اور جیسا کہ عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان نے اشارتاً کہا تھا کہ سرکاری ملازمین سیاسی دباو¿ میں آ کر ترقیاتی ترجیحات سے متعلق فیصلوں کو حتمی شکل نہ دیں تو عدالت کی جانب سے اِس خاص نکتے کو رہنما اصول اور تھوڑے کہے کو بہت (کافی) سمجھنا چاہئے ہزار باتوں کی جس ایک بات کو مہذب انداز میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ترقیاتی حکمت عملیاں اور اداروں کی کارکردگی ’سیاسی دباو¿‘ کو خاطر میں نہ لایا جائے تو 100 باتوں کی اِس ایک بات پر‘ اِس کی روح (اصل و معنویت) کے مطابق مکمل عمل درآمد ہونا چاہئے کیونکہ شہری سہولیات کا دائرہ وسیع کرنے اور مسائل کے حل کی دوسری کوئی قابل عمل اور پائیدار صورت نہیں ہے۔