فروری 2018 میں اپنی زندگی کی پہلی ڈاکومنٹری فلم بنانے کےلئے افریقہ کے ملک یوگنڈا جانے کا موقع ملا، سویڈن میں تعلیم حاصل کرنے کی ایک زبردست خوبی یہ بھی کہ یہاں بے شمار کورسز میںکتابی پڑھائی سے زیادہ learning by doingکو ترجیح دی جاتی ہے جو کہ بلاشبہ تعلیم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔یہی وجہ تھی کہ اپنے تعلیمی سال کے آخری 6مہینے ہمیں اپنے ڈاکومنٹری کا موضوع چُننے کےلئے ریسرچ کرنے اور سفر کی تیاری کرنے کے لیے دئیے گئے تھے، لہذا ریسرچ مکمل کرنے کے بعد تمام سٹوڈنٹس یوگنڈا کے سفر پر روانہ ہوئے، ہمارا گروپ 18افراد پر مشتمل تھا جن میں 6میل سٹوڈنٹس‘ 9فی میل سٹوڈنٹس اور 2اساتذہ شامل تھے۔ یوگنڈا پہنچنے پر پہلی نظر میں یہ بات تو واضح ہوئی کہ قدرتی طور یہ ایک خوبصورت ملک ہے لیکن یہاں کا انفراسٹرکچردیکھ کر یہ بھی واضح ہوتا رہا کہ یہ ایک پسماندہ ملک بھی ہے ۔اس حساب سے یوگنڈا اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جن پر بات کرنا بنتا ہے۔ہماری فلائٹ چونکہ آدھی رات کو پہنچی تھی لہٰذا ائیر پورٹ سے ہوٹل تک کے سفر کے دوران اردگرد کے علاقوں اور لوگوں کا کوئی خاص اندازہ تو نہیں ہوا لیکن پورے راستے میں ٹیکسی ڈرائیور کو ایک پریشانی کھائی جارہی تھی کہ اگر صبح کے 5بجے سے پہلے پہلے ہوٹل تک نہیں پہنچے تو پھر ہمیں چند منٹوں کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کرنا پڑے گا کیونکہ صبح ہوتے ہی ٹریفک اور لوگوں کا رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ پورا نظام ہی عجب دکھائی دیتا ہے۔ بحرحال خوش قسمی سے ہم 5بجے سے پہلے ہی اپنے ہوٹل پہنچ گئے تو آرام کرنے کے بعد اپنی اپنی ڈاکومنٹری فلم کی تکمیل کے لیے حقیقی کرداروں کی تلاش میںنکل پڑے۔ ہوٹل سے باہر نکلتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمیں ہوٹل چھوڑنے والے ٹیکسی ڈرائیور کی پریشانی واقعی صحیح تھی، پہلے دن جب شہر کے اندر ٹیکسی میں سفر کیا تو 5کلومیٹر کا سفر کرنے میں ہمیں 4گھنٹے لگے۔ ایک بے ہنگم ٹریفک، ہر طرف لوگوں کا جمِ غفیر ، کوئی بھی کہیں سے بھی سڑک عبور کرنے کےلئے بھاگتا دکھائی دے رہا تھا۔ یقین کیجئے کہ مجھے لگا کہ میں پاکستان آگیا ہوں۔ میرے دیگر ساتھی شروع کے چند دن کافی حیران و پریشان رہے لیکن مجھے میرے پاکستانی ہونے کی وجہ سے نہ تو کوئی پریشانی ہوئی اور نہ ہی کوئی حیرت، مجھے لگا کہ اب آیا ہے پاکستانی ہونے کا مزہ کہ ہماری تو زندگی ہی ایسی بے ہنگم اور بے ڈھنگ طریقے گزری ہے جس میں ٹریفک کے نظام سے لیکر ہر طرح کے دفتری اور حکومتی نظام تک سب کا سب بگڑاہوا چلا آیا ہے۔پہلے روز چونکہ ہمارا کافی وقت ضائع ہوگیا تھا لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹیکسی کی بجائے موٹر سائیکل ٹیکسی کا استعمال شروع کریں جوکہ تیزترین ذریعہ ہے۔ موٹر سائیکل کے استعمال سے پہلے جب ہم نے موٹر سائیکل کی سواری کے حادثات کے اعداد و شمار دیکھے تو کافی خوفناک تھے ، لیکن ہمارے پاس وقت کی بچت کا دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ موٹر سائیکل ٹیکسی کو یوگینڈا میں بوڈا بوڈا کہتے ہیں۔ بوڈا بوڈا پر سوار ہونے کے چند ہی منٹوں بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ اس سے وقت کی بچت کیسے ممکن ہوجاتی ہے، اس دوارن ایک بار مجھے لگا کہ میں شاید پاکستان میں آگیا ہوں، موٹر سائیکل چلانے والا ٹریفک جام کے بیچ و بیچ ایسے چلتا رہا جیسے پاکستان میں ہوتا ہے، جہاں ٹریفک کے بیچ میں جانے کی جگہ نہ ملتی وہاں اپنی موٹر سائیکل کو فٹ پاتھ پر چڑھا کر دوڑانے لگتا۔ اگر کہیں کوئی ٹریفک وارڈن نظر آتا تو لائن میں لگنے کی کوشش شروع ہوجاتی لیکن جیسے ہی وارڈن کی نظر ہٹ جاتی تو بوڈا بوڈا ایک بار پھر اپنی عملداری شروع کردیتا ۔ یہ سب دیکھ کرمجھے بالکل بھی حیرت نہیں ہو رہی تھی لیکن اس دوران ایک موقع ایسا آیا جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، اور مجھے ایسا لگا کہ میں اب واقعی یوگنڈا میں ہوں پاکستان میں نہیں، میں جس موٹر سائیکل پر سوار تھا اُس کی ہلکی سی ٹکر ہوگئی ایک موٹر کار کے ساتھ، میں توقع کر رہا تھا کہ اب تو ان کا جھگڑا ہوگا اور گالم گلوچ بھی لیکن میری توقع کے برعکس موٹر سائیکل اور موٹرکار کے ڈرائیورز نے ایک دوسرے دیکھا اور ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اپنے اپنے راستے چلتے بنے۔ اس چھوٹے سے واقعے نے مجھے حیرت زدہ کردیا، کیونکہ پاکستان میں آئے روز ٹریفک کے دوران لڑائی مار کٹائی معمول کی بات ہے۔ میرا خود کا کئی بار مشاہدہ ہوا ہے اور یقینا آپ کا بھی ہوا ہوگا کہ آپ کسی کے دوست، رشتہ دار یا کسی اور کے ساتھ موٹر کار میں بیٹھے ہوں گے اور جس کے ساتھ آپ گاڑی میں بیٹھے ہوں گے وہ آپ کو دوران ڈرائیونگ دوسرے گاڑی چلانے والوں کو تسلسل کے ساتھ برا بھلا کہتا نظرآیا ہوگا۔ایک بہت بڑی مماثلت جو یوگنڈا اور پاکستان میں مجھے نظر آئی وہ وہاں کا سیاسی نظام ہے، کئی طرح کے مافیاز ملک کے ہر کاروبار کو کنٹرول کرتے ہیں جن کو حکومتی عہدیداروں اور بیوروکریسی کی بھرپور سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔