پشاور:صوبائی حکومت نے کورونا کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اپوزیشن جماعتوں کو جلسوں کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ اگر جلسوں کی وجہ سے صورت حال بگڑی تو اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہی مقدمات قائم کیے جائیں گے۔
آج یقین دہانیوں کے باوجود اپوزیشن نے جرگہ میں شرکت سے انکار کرکے دیرینہ پختون روایات کامذاق اڑایاہے جو انتہائی قابل مذمت امرہے حالات کاتقاضاہے کہ اس معاملہ پر سیاست نہ کی جائے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔
ا ن خیالات کااظہار حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین صوبائی وزراء تیمورسلیم جھگڑا،شوکت یوسفزئی،اکبرا یو ب خان،سلطان خان اور کامران خان بنگش نے صوبائی اسمبلی کے جرگہ ہال میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے کمیٹی کی تشکیل کامقصد اپوزیشن رہنماؤں کو کورونا کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے حوالہ سے بریف کرناتھا تاکہ ان کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے مگر غیر سنجیدگی کامظاہر ہ کرتے ہوئے انہوں نے ملاقات سے ہی انکار کردیا۔
انہوں نے ثابت کردیا کہ ان کو عوام کی کوئی فکر ہی نہیں ان کے جلسوں کامقصد احتساب کے راہ فرار اختیار کرناہے اپوزیشن کے بیانیہ کو پورے ملک نے پہلے ہی مسترد کیاہواہے جس کے بعداب یہ اپنے ہی کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک دفعہ کورونا کاخطرہ ختم ہوجائے تو ہم ان کو جلسوں کاچیلنج دینے کے لیے تیار ہیں ویسے بھی ہم سوات اور حافظ آباد جلسوں کے ذریعہ ٹریلر چلاچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کورونا کی دوسری لہرزیادہ خطرناک ہے پشاور میں چند ماہ میں یہ شرح ایک فیصد سے بڑھ کر نو فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے جبکہ اس میں دس گنا اضافہ کابھی خدشہ ہے یہی وجہ ہے ہم نے اپنے جلسے اورتمام عوامی تقریبات منسوخ کردی ہیں اوراپوزیشن سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی عوامی مفاد میں جلسے منسوخ کردیں۔
مانسہرہ اورپشاور دونوں کورونا کیسز میں سب سے آگے ہیں اوراپوزیشن مانسہرہ کے بعد اب پشاور میں بھی جلسہ پر بضد ہے جو افسوسناک امرہے حالانکہ اس سے پہلی والی لہر میں اپوزیشن نے سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے سپورٹ کیاتھا مگراب اس کی ضد خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کوکسی بھی صورت جلسہ کی اجازت نہیں دی جائے گی البتہ ہم کسی کو زبردستی نہیں روکیں گے ہم جمہوری لوگ ہیں اور معاملات بات چیت سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں مگراب اپوزیشن بات چیت سے راہ فرار اختیار کرگئی۔
صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے میڈیا کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عوام کی حفاظت عزیز ہے جبکہ اپوزیشن کو ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ عوام پی ڈی ایم کو مسترد کر چکی ہے۔ جلسہ کرنے سے زبردستی سے اپوزیشن کو نہیں روک سکتے لیکن اگر عوام کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار اپوزیشن ہوگی۔
تیمور سلیم نے کہا کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران اپوزیشن پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا طعنہ دیتی تھی اب منافقت کر رہی ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کا عوام کو لاک ڈاؤن پر قائل کرنا مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اپوزیشن سے گلہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی لہر میں اپوزیشن نے حکومت کو سپورٹ کیا لیکن اب نہیں کر رہے۔ ملک میں تشویش ناک صورتحال کے باوجود اپوزیشن کا مذاکرات کے لیے نہ آنا انتہائی افسوس ناک ہے۔
اس موقع پر ترجمان خیبرپختونخوا حکومت کامران بنگش نے اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کا جرگہ کے نہ آنے کو غیر پارلیمانی رویہ کہتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو اپنے اوپر اتنا یقین نہیں تھا تو کیوں کہا کہ مذاکرات کریں گے۔ خود کہتے ہیں کہ مسائل کو پارلیمانی طریقہ کار سے حل کریں کے لیکن رویے غیر پارلیمانی رکھے ہوئے ہیں
ادھرعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ22 نومبر کو پشاور جلسہ ہر صورت ہوگا، جس کے لئے تمام تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔
حکومت جلسے کو ناکام بنانے کے لئے لاکھ کوششیں کریں ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
باچا خان مرکز پشاور سے جاری کردہ بیان میں اے این پی کے مرکزی ترجمان میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ حکومت کے جلسوں میں کورونا کے پھیلنے کا حدشہ نہیں تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے پاور شوز سے گھبرا کر حکومت کو کورونا یاد آگیا ہے۔
پرسوں تک حکومت خود ہی جلسے کررہی تھی اب پی ڈی ایم کے خوف سے اجتماعات پر پابندی کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے لیکن کوئی حکومتی ہتھکنڈا جلسے کو کامیابی سے نہیں روک سکتا، تمام اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان ایس او پیز پر عمل پیرا ہوکر اور ماسک پہن کر جلسہ میں شرکت کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے خلاف نیب،ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ذریعے جھوٹے مقدمات قائم کرنے اور انتقامی کارروائیوں سے اپوزیشن کی تحریک رکے گی نہیں بلکہ اس کی رفتار مزید تیز ہوگی اورسلیکٹڈ حکومت کو گھربھجوانے تک جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ میثاق تیاری کے آخری مراحل میں ہے، بنیادی نکات پر تمام اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق ہوچکا ہے جس کو حتمی شکل دینے کے لئے مشترکہ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو جلد ہی اپنے سفارشات پی ڈی ایم کے قائدین کے سامنے پیش کرے گی۔
نئے میثاق میں آئین کی بالادستی و عمل داری، سیاست سے ریاستی اداروں کے عمل دخل کا خاتمہ، صوبائی خود مختاری کا تحفظ،عوام کے بنیادی اور معاشی حقوق کا تحفظ یقینی بنایاجائے گا۔