انہی کالموں میں کچھ عرصہ قبل ہی بھارت کی ریشہ دوانیوں کے حوالہ سے اظہار خیال کیاگیاتھا اب چندروزقبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کے ثبوت پیش کردیئے اور اس حوالہ سے ایک ڈوزیئر بھی جاری کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی آڈیو اور ویڈیو بھی کانفرنس میں دکھائی گئی اس کے ساتھ ساتھ مختلف ناقابل تردید ثبوت پیش کئے گئے ۔ان کاکہناتھاکہ پاکستان یہ ڈوزیئر اقوام متحدہ اسلامی تعاون تنظیم اور دیگر ممالک کو پیش کرے گا بھارت ریاستی دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے ‘نومبر اور دسمبر میں کراچی ، لاہور اور پشاور میں بھارتی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا خطرہ ہے تاہم اب پاکستان مزید خاموش نہیں رہے گا نائن الیون کے بعد پاکستان نے فرنٹ لائن ٹیسٹ کے طور پر بھاری قیمت چکائی ہے 2001ءسے 2020ءتک 19 ہزار 230 دہشت گردی کے حملے برداشت کئے ہزاروں شہادتیں ہوئیں پاکستان کو 126 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی میں ایک سیل بنایا گیا ہے جو وزیر اعظم مودی کی براہ راست نگرانی میں کام کرتا ہے اس سیل کو 80 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں اور 700 افراد پر مشتمل ملیشیاءبنائی گئی ہے ، یہ حقائق اب سامنے آچکے ہیںکہ پاکستان کے عدم استحکام کے لئے بھارت نے دہشتگردوں کو پیسہ ، اسلحہ اور تربیت کے ذریعے دہشت گردی کو سپانسر کیا ہے ۔یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان نے بھارت کی دہشتگردی کے ٹھوس ثبوت اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کو دیئے ، بعض امریکی سینیٹرز نے بھی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری بھارت پر ڈالی ہے لیکن اس کے باوجود عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے بھارت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ، اس وقت افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت کے لئے 66 کیمپ موجود ہیں دہشت گردی کی فنڈنگ کے لئے افغانستان میں بھارتی سفارت خانے سپانسر شپ کے مراکز ہیں بھارت اپنے آدمیوں کو تیسرے ممالک میں رقوم فراہم کررہا ہے ایم کیو ایم ایک بار پھر کراچی میں منظم ہورہی ہے جبکہ علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں بھی دوبارہ متحرک ہورہی ہیں اور ان سب کو بھارت کی طرف سے مالی معاونت مل رہی ہے۔ وزیر خارجہ اور پاک فوج کے ترجمان نے پاکستان خلاف بھارت کے عزائم بمعہ ثبوت پیش کردیئے ہیں کراچی ، لاہور اور پشاور دہشت گردوں کی براہ راست نشانے پر ہیں ممکن ہے اس پر اپوزیشن اتحاد والے اعتراض کریں اور اسے اپنے جلسوں کو روکنے کا ایک اقدام تصور کریں تاہم اپوزیشن والوں کو بھی ہر لحاظ سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے ہمارا واسطہ ایک بے غیرت دشمن سے ہے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے اس لئے حکمرانوں ، اپوزیشن والوں ، سول سوسائٹی ، عوام ‘علماءکرام سب کو ہوشیار اور محتاط رہنا ہوگا بھارتی شرانگیزیوں اور دہشت گرد حملوں سے بچنے کے لئے ہم سب کو متحد ہونا ہوگا تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان بھارت نے پہنچایا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالہ سے پاکستان اپنا سفارتی محاذ مضبوط کرے بیرون ملک پاکستان سفیروں کو واضح ہدایات دینی چاہئیں کہ وہ جن ممالک میں تعینات ہیں وہاں کی حکومتوں اور عوام کو بھارتی شرانگیزیوں سے احسن طریق سے آگاہ کریں۔ پاکستان کی نمائندگی کا حق صحیح طریقہ سے ادا کریں، بد قسمتی سے پاکستان کے سفیروں کی کارکردگی مایوس کن ہے ، مناسب ہوگا کہ سفارش یا سیاسی وفاداریوں کے حامل سفراءکی جگہ انتہائی قابل اور تجربہ کار اور پاکستان دوست سفیروں کو لگایا جائے ۔ تب جاکر پاکستان دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرسکتا ہے ۔ پاکستان کو اس وقت اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے ان خطرات سے نمٹنے کے لئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو اپنے اختلافات ختم کرکے ملک کے دفاع کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا ۔ کراچی، لاہور اور پشاور کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں کے تحفظ کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ اس ضمن میں عوام کو بھی اپنے حصہ کی ذمہ داریوں کو پوراکرنا ہوگا ۔ عوام اپنے اپنے علاقوں میں ، تاجر تنظیمیں اپنے بازاروں اور سول ڈیفنس کے رضا کار اپنے علاقوں میں خاصے چوکنا رہیں دشمن کسی بھی وقت اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہم اپوزیشن سے بھی مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ حکومت کے اس انتباہ کو سیاسی رنگ نہ دے اور اپنے کارکنوں کو اس ضمن میں محتاط اور ہوشیار رہنے کا کہیں ۔ اس وقت سیاسی سکورنگ کی بجائے ملک کے دفاع پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ملک کی نمایاں شخصیات کو بے حد احتیاط سے کام لینا ہوگا، اہم شخصیات کو ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہو سکے تو حکمران اور اپوزیشن اپنے جلسوں کو یا تو موخر کریں یا پھر جلسوں کی حفاظت کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضح کریںکیونکہ بھارت کسی ایک فریق کانہیں ہم سب کامشترکہ دشمن ہے اور اب جبکہ اس کے عزائم طشت ازبام ہوتے جارہے ہیں تو پھر مزید احتیاط یقینا وقت کاتقاضاہے کوئی بھی معمولی سانحہ حالات کو کسی اورنہج پرلے جانے کا موجب بن سکتاہے ‘اس لئے دفاع اوراستحکام وطن کے ایک نکاتی ایجنڈے پر کسی کو بھی کمپرومائز نہیں کرناچاہئے کیونکہ یہ وطن سلامت ہے تو سیاست بازیاں ہوتی رہیںگی اس لئے ہردم خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔