شادی دو دلوں کا بندھن اور دوخاندانوں کا جوڑ ہے مگر ہمارے ہاں شادی دن بہ دن مشکل تر ہوتی جا رہی ہے لوگ بچوں کی خوشی سے زیادہ اپنی حیثیت منوانے اور لوگوں کو اپنے پیسے سے مرعوب کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ایک شادی پر عمر بھر کی کمائی لٹا دی جاتی ہے ‘قرض لئے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر قرض اتارنے میں گزاردی جاتی ہے ‘کچھ لوگ جائیدادیں فروخت کرکے شادی کا انتظام کرتے ہیں ‘ایک سے بڑھ کر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ‘لوگ ان کی شاہ خرچیوں پر ان کی تعریف کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت کی شادی کی تقریبات انکی حیثیت سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں مگر صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ لوگوں کو متاثر اور مرعوب کیا جائے لوگوں کو دکھایا جائے کہ کس طرح انہوں نے شادی میں پانی کی طرح پیسہ بہایا مگر اپنی حد اور استطاعت سے زیادہ خرچ کریں تو نہ صرف پیسے اور جائیداد کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ لوگ الٹا کھانا کھا کرمذاق بھی اڑاتے ہیں کچھ کہتے ہیں حرام کامال ہے کچھ کہتے ہیں اسکے لئے ماں باپ کی جائیداد بیچ ڈالی ‘ کئی کہتے ہیں اب اس کیلئے قرض ادا کرتے رہیں گے ‘بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بڑی تقریبات اور ان میں بہائے جانے والے پیسے سے مرعوب ہوتے ہیں یا اسکی تعریف کرتے ہیں ‘متوسط طبقے کے لوگ زیادہ خوار ہوتے ہیں جو مہنگے ہالز میں بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ امیروں کی نقل کرسکیں امراءبعض اوقات تقریبات کرکے مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں ملک کے دو بڑے کاروباری خاندانوں کے ساتھ ہوا شادی کی تقریب پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں خرچ کئے گئے گلوکاروں کو کروڑوں ادا کئے گئے ایک کلب کو4ماہ کیلئے 15کروڑ روپے پر بک کیاگیا تاکہ وہاں روزانہ تقریبات منعقد کی جاسکیں کہتے ہیں کہ صرف آتش بازی پر ایک کروڑ خرچ کئے گئے انجام یہ ہوا کہ سرکاری محکمے حرکت میں آگئے اور سب کی آمدنی کے مطابق ان کو ٹیکس کے نوٹس جاری کئے گئے دونوں خاندانوں کو بھی نوٹس جاری ہوئے اب اسے سستی شہرت کہہ لیں یا بدنامی مگر اس تقریب کا ذکر آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا پر عام ہے لوگ زیادہ تر تنقید دولت کے بے جا ضیاع پر کر رہے ہیں کیونکہ جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے اس قسم کی تقریبات اور نمودونمائش سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے اس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو کئی کاروباری خاندان اور شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے شادی پر ہونے والے اخراجات سے غریبوں کی فلاح و بہبود کے کام کئے خیبرپختونخوا کے ایک امیر خاندان کے نوجوان نے اخراجات کی ساری رقم بڑوں سے لیکر سادگی سے شادی کی اور اس رقم سے اپنے علاقے کی غریب بچیوں کے جہیز اور انکی شادی کے اخراجات کا انتظام کیا ‘بھارت میں چند ماہ قبل ہونیوالی ایک شادی میں والد نے اپنی بچی کی شادی پر90 بے گھر خاندانوں کو ایک کمرے کے گھر بنوا کر دیئے ایسے لوگ بھی ہیں جو اگر کسی اور پر خرچ نہیں بھی کرسکتے تو شادی پر ہونیوالے اخراجات سے دلہا کیلئے کاروبار کا بندوبست کرتے ہیں یا بچی کیلئے ایسا بندوبست کرتے ہیں کہ اسکی آئندہ زندگی میں وہ کارآمد ہو ‘جتنا بھی بڑا کھانا اور پرتعیش تقریب ہو اسی دن ختم ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے جیسے لوگ افسوس کرتے ہیں کہ جائیداد بیچ کر‘ قرض لیکر یا عمر بھر جمع کرکے جو رقم شادی پر لٹائی اس کو کسی بہتر جگہ استعمال کیا جا سکتا تھا سادگی سے نہ صحیح لیکن شادی کی تقریب اگر کرنی بھی ہو تو اپنی حیثیت کے مطابق کرنی چاہئے دوسرے صوبوں میں2یا3سو مہمانوں کو بلا کر انکی خاطر خواہ مہمانداری کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ہزاروں مہمانوں کو بلایا جاتا ہے تقریب بھی بدانتظامی کا شکار ہو جاتی ہے مہمانوں کو نہ وقت دے پاتے ہیں نہ ہی انکی صحیح انداز میں خاطر داری ہو پاتی ہے اس لئے صرف نمودونمائش کیلئے نودولتیوں کی تقلید میں ہزاروں مہمان بلانے ‘کئی کئی دن تقریبات کرنے کی بجائے ایسا اہتمام کیا جائے کہ خاندان والے اور دوستوں کے ہمراہ خوشی منائی جائے تقریبات اول تو سادہ اور محدود ہوں شریعت کے مطابق ہوں اگر مہمانوں ‘گاﺅں والوں اور دیگر کو بلانا بھی ہو تو چار یا پانچ سو سے زیادہ مہمانوں کو دعوت دیکر بہترین ولیمہ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ کسی پر تنگی نہ ہو نہ اس کیلئے قرض لینے کی ضرورت پڑے نمودونمائش اور رسومات ہمارے ہاں شادیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ایسے لوگ بھی ہیں جوفوتگی والے دن گائے بھینس ذبح کرکے سینکڑوں مہمانوں کو کھلاتے ہیں ‘ ایسی رسومات کے خلاف مشران اور پڑھے لکھے لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ‘ہم سب کو شادی اور غم میں ایسی رسومات اور نمودونمائش کی حوصلہ شکنی کرنی ہے ‘حکومت کو بھی شادی میں ون ڈش والی پابندی دوبارہ اور موثر انداز میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتظار میںبیٹھے نوجوانوں کی شادیاں ہوں اور ہزاروں خاندانوں کیلئے آسانی پیدا ہو۔