آزادی¿ اظہار: حدود و قیود

وفاقی وزارت برائے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ کی جانب سے ’سوشل میڈیا قواعد‘ گزشتہ روز جاری کرنے سے پاکستان میں سوشل میڈیا کے مستقبل بارے بحث ہو رہی ہے کیونکہ مذکورہ قواعد سے متعلق اعلامیہ جاری ہونے کے بعد سے انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں سمیت سوشل میڈیا آزادی کی وکالت کرنے والے کارکن اور صارفین نوحہ کناں ہیں‘ جن کا بنیادی اعتراض ”ریموول اینڈ بلاکنگ آف اَن لاءفل آن لائن کنٹینٹ رولز 2020ئ“ نامی قواعد کے مجموعے پر ہے جو ’الیکٹرانک جرائم سے متعلق 2016ءکے قانون کی روشنی اور اِس قانون کے اطلاق و عملاً ممکن بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ پاکستان میں جب الیکٹرانک جرائم کے خاتمے سے متعلق قانون سازی کی گئی تھی تو اُس میں زیادہ تفصیلات نہیں تھیں اور ہر قانون کی طرح اِس سے متعلق قواعد الگ سے اخذ کئے گئے اور اس عمل میں چار سال لگ گئے! نئے قواعد کے تحت انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں کی طرح سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی حکومت سے پاکستان میں اپنی خدمات متعارف کروانے کے لئے لائسنس حاصل کرنا ہوگا اور وہ سبھی قوانین و قواعد جن کا اطلاق انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں پر ہوتا ہے ان کا اطلاق سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھی ہوگا۔ رواں برس کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے مواد سے متعلق متعلقہ شعبے کے ماہرین اور صارفین کی آراءکی روشنی میں قواعد مرتب کریں گے اور اِس سلسلے میں آن لائن سرگرمیوں سے صارفین و عوامی تحفظ کے لئے ’سٹیزن پروٹیکشن رولز 2020ئ‘ بنائے گئے جس کے لئے مشاورتی عمل کا اعلان و آغاز فروری میں کیا گیا تھا۔ براعظم ایشیا میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے مذکورہ قواعد پر تنقید کرتے ہوئے اِس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر حکومت پاکستان میں سوشل میڈیا کی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کی خواہشمند ہے تو اُسے ایک ایسا درمیانی راستہ نکالنا چاہئے جس میں سوشل میڈیا صارفین کی آزادی متاثر ہوئے بغیر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکا یا غلط استعمال کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔خلاصہ¿ کلام یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے عام صارف کو مذکورہ کسی بھی قانون یا اُس قانون کی تشریح و وضاحت کرنے والے قواعد سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِن میں سے بیشتر کا تعلق کاروبار‘ آمدن اور ملک کی قومی سلامتی سے متعلق امور سے ہے۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سوشل میڈیا کے ذریعے تفتیش کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی سوشل میڈیا کمپنی کا پاکستان میں دفتر ہی نہیں ہوگا اور وہ پاکستان سے صرف منافع کمائے گی لیکن اُس کے پاکستان میں دفاتر اور ملازمین جیسے مفادات نہیں ہوں گے تو ایک تو وہ پاکستان کے قوانین کا لحاظ پاس اور احترام کرنے پر سنجیدگی سے غور نہیں کرے گی اور دوسرا وہ صارفین کے کوائف اور ذاتی معلومات کی حفاظت بارے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں سوچے گی۔ ریاست عوام کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے اور یہ اکثریت کی بجائے اُس اقلیت کے بارے میں زیادہ سوچتی ہے‘ جس کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو۔ حکومت کے نکتہ¿ نظر سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے دفاتر کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے کیونکہ صرف اِسی طرح قوانین کا اطلاق و احترام ممکن ہے۔ پاکستان کے خاص حالات اور اِن خاص حالات کے لئے قوانین و قواعد کا ہونا ضروری ہے۔ حالیہ چند برس میں سوشل میڈیا کا استعمال نہ صرف غلط معلومات بلکہ بے راہ روی کے لئے بھی ہونے لگا ہے جس کا شکار کم خواندہ نوجوان ہو رہے ہیں۔ حکومت کے لئے یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ ویڈیو لاگرز سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں ‘سیاسی فیصلہ سازوں کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھتی ہوئی تنقید روکنے کے لئے قانون و قواعد کا سہارا لیا جا رہا ہے تاہم اِس پوری صورتحال سے وہ عام صارف یا اُس کی آزادی متاثر نہیں ہوتی جس کے لئے سوشل میڈیا کاروبار یا کمائی کا ذریعہ نہیں ہے ‘کن کن اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انٹرنیٹ اور آزادی¿ اظہار کی باتیں کرنے والے ”پورا سچ“ بیان نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ وسائل سمیت سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہونا چاہئے لیکن اگر اُن سے استفسار کیا جائے کہ ایسا دنیا کے کس ملک میں ہوتا ہے تو اُن کے پاس جواب تو بہت ہوں لیکن دلیل نہیں ہوگی کہ انٹرنیٹ کا اسلوب اور آزادی‘ اِس کے استعمال و مقاصد کا اظہار و بیان (تعارف) کس طرح بن گئی ہے!