سیاسی درجہ حرارت میںاضافہ

حکومت کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی تحریک کے ساتھ ملک کا سیاسی موسم کافی گرم ہوچکا ہے حکومت پر اعتراض کا اپوزیشن کے پاس ایک کی درست نکتہ ہے کہ مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن کو اقتدار مل جائے تو کیا وہ عالمی کسادبازاری کا حل پیش کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو مشکل معاشی حالات درپیش ہے اور عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اپوزیشن جماعتوں کو جو عوامی سپورٹ اس وقت میسر ہے اس کی بڑ ی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کو اس وقت مہنگائی سمیت گونا گوں مسائل کا سامنا ہے جس کے حل کے لئے اگر اپوزیشن کے پاس کوئی ایجنڈا ہے تو یقینا عوام کے لئے یہ ایک امید کی کرن ہے تاہم خالی نعروں اور دعوﺅں کی بجائے عملی اقدامات کا مظاہرہ کرنا وقت کی ضرورت ہے جہاں تک اپوزیشن کی تحریک کا معاملہ ہے تو ایک جمہوری معاشرے میں اس کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے جہاں حزب اختلاف اپنی آواز اٹھانے اور اپنا موقف عوام تک پہنچانے کے لئے مختلف فورمز استعمال میں لاتی ہے جلسے اور جلوس بھی اس کا ایک ذریعہ ہے۔ بے شک ایک جمہوری نظام میں اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ حکومت کو من مانی سے روکا جا سکے ملکی مفادات کے خلاف قانون سازی میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے اور حکومت پر دباﺅ ڈال کر اسے ملکی مفاد میں کام کرنے پر مجبور کیا جا سکے تمام جمہوری ملکوں میں یہی سیاسی دستور ہے ایوان کے اندر گرما گرمی بھی ہوتی ہے دھینگامشتی کی بھی نوبت آتی ہے لیکن یہ سب کچھ سیاسی اختلاف کی حد تک ہے ملکی مفادات پر کوئی سیاسی پارٹی سمجھوتہ نہیں کرتی مگر ہمارے ہاں کی سیاست بھی نرالی ہے یہاں انتخابات ہارنے والی کسی جماعت نے آج تک نتائج کو تسلیم نہیں کا اپنی شکست کی ہمیشہ سازش کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے اب اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں حزب اختلاف کو اپنا موقف عوام کے سامنے لانے اور اپنے حق میں رائے عامہ کو فعال کرنے کا حق ہے وہاں حکومت کو بھی معاملات درست سمت میں چلانے کی ضرورت ہے تاکہ اپوزیشن جن نکات پر عوام کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کر رہی ہے اس کی گنجائش کم سے کم رہے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کچھ غلطیاں کی ہیں لیکن بہت سے اچھے کام بھی کئے ہیں جنہیں عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے اپوزیشن کو چاہئے کہ حکومت کواپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے دیں اگر وہ عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اور اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرسکی تو اگلے انتخابات میں عوام خود انہیں مسترد کردینگے تب تک جن لوگوں کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں ان کے بھی فیصلے ہونگے الزامات ثابت ہوئے تو سزائیں ہوں گی جو بے گناہ نکلے انہیں سیاست اور ملک کی قیادت کا موقع بھی مل سکتا ہے اس لئے صبر کریں بے شک صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن کی تحریک کس موڑ پر پہنچتی ہے تاہم موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مفاہمت اور مصالحت کی اشد ضرورت ہے۔