سرخرو خلق سے اُٹھے!

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک وفات‘ پرہجوم نماز جنازہ اور تدفین کے مراحل میں لاکھوں اَفراد کی شرکت سے اُس اصولی مو¿قف کی آفاقیت‘ مقبولیت اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے مذہبی حلقوں کے اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علامہ خادم حسین کو الوداع کہنے اور اُن کا آخری دیدار کرنے کے لئے صرف لاہور ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں سے اُن کے عقیدت مند اُمڈ آئے اور پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی غیرسرکاری‘ مذہبی یا سیاسی شخصیت کا اتنا پرہجوم جنازہ دیکھنے میں نہیں آیا‘ جنہیں ہزاروں اور لاکھوں اَشکبار آنکھوں کے سامنے سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ کی ادائیگی سے کچھ دیر قبل (اکیس نومبر سہ پہر ڈیڑھ بجے) علامہ خادم حسین کے بڑے صاحبزادے حافظ سعد رضوی کو ’تحریک لبیک پاکستان‘ کا نیا سربراہ نامزد کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ اندیشہ تھا کہ اگر علامہ خادم حسین رضوی کی جانشینی کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوا‘ تو اِس کے نتیجے میں تحریک دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی لیکن اِس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کر لیا گیا۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کےلئے صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر تھا لیکن سوگوار ہجوم کی وجہ سے مینار پاکستان (گریٹر اقبال پارک) تک جسد خاکی پہنچانے میں دقت اور رقت کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ نماز جنازہ سہ پہر ایک بجکر 43 منٹ پر ادا ہوئی‘ جس کی امامت اُن کے استاد علامہ عبدالستار سعیدی نے کی اور اُنہیں دن ڈھلے مسجد رحمت للعالمین (ملتان روڈ لاہور) سے متصل مدرسہ ابوذرغفاری کے احاطے سپردخاک کر دیا گیا (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔ ناقابل یقین مناظر تھے کہ عقیدت مندوں کی بڑی تعداد مینار پاکستان اور اِس کی راستوں پر جوق در جوق اور قطار در قطار منظم انداز میں جمع ہوئی اور شاید ہی پاکستان میں کسی بھی مذہبی و سیاسی شخصیت کے آخری دیدار کی خواہش کرنے والوں نے اُن کی خدمات کو اِس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہو کہ جہاں ہر آنسو اور ہر مغفرت کی ہر دعا اِس بات کا ثبوت تھی کہ اُنہوں نے اپنی زندگی اور جدوجہد جس عشق مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چراغ روشن کرتے بسر کی درحقیقت وہ کوشش کامیاب رہی اور اِس کا ثبوت پرہجوم جنازہ تھا۔مذہبی و سیاسی جماعت ’تحریک لبیک پاکستان‘ کے بانی چند برس پہلے تک زیادہ معروف شخصیت نہیں تھے لیکن نومبر 2017ءمیں ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے جب وہ راولپنڈی‘ اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد چوک پہنچے اور وہاں دھرنا دیا تو اُن کی شہرت چارسو پھیل گئی۔ اُس دھرنے کے تین برس بعد‘ رواں ماہ بھی وہ اُنہوں نے فیض آباد کے مقام پر دوبارہ دھرنا دیا جو چند دنوں ہی میں حکومت کے ساتھ ہوئے معاہدے کے نتیجے میں اختتام پذیر ہوا لیکن ’تحریک لبیک پاکستان‘ کا مو¿قف‘ حمایت اور جدوجہد دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں سب کچھ قابل برداشت ہے لیکن توہین رسالت سے متعلق قانون میں ترمیم ممکن نہیں اور اگر عالمی دباو¿ پر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو دینی جماعتیں طاقت و صلاحیت رکھتی ہیں کہ وہ قومی سیاسی فیصلہ سازی کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں‘ جن کے لئے عام انتخابات میں کامیابی آپسی اتحاد کی صورت مشکل نہیں اور اگر علامہ خادم حسین سے زندگی وفا کرتی تو وہ آئندہ عام انتخابات میں دینی جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی کوششوں کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے اور ناموس رسالت و ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم مقصد کے حصول کے لئے بطور ’اتحاد بین المسلمین کے داعی‘ بنتے ہوئے دین کے کئی فروعی امور سے متعلق اپنے سخت گیر مو¿قف پر نظرثانی کر چکے تھے۔علامہ خادم حسین کی شخصیت واقعات کے ردعمل میں اُبھر کر سامنے آئی‘ جس میں کلیدی کردار پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور معروف کاروباری و سیاسی شخصیت سلمان تاثیر کا قتل تھا۔ پیپلزپارٹی کے اِس رہنما اور آصف علی زرداری کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے والے سلمان تاثیر کو ’توہین رسالت‘ سے متعلق قوانین کے بارے میں غیرمحتاط اِظہار خیال کرنے کی بنا پر ’4 جنوری 2011ئ‘ کے روز پنجاب ایلیٹ پولیس کے اہلکار ممتاز قادری نے قتل کیا جو بطور سیکورٹی گارڈ ’گورنر پنجاب‘ کے حفاظتی دستے کا رکن تھا۔ بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تیس سالہ ممتاز قادری کو سزائے موت سنائی جس پر عمل کرتے ہوئے 29 فروری 2016ءاڈیالہ جیل راولپنڈی میں ممتاز قادری کو پھانسی دیدی گئی۔ اِس قتل‘ اقدام قتل اور سزائے موت سے متعلق تقاریر کرنے پر علامہ خادم حسین رضوی اُبھر کر سامنے آئے۔ آپ محکمہ¿ اوقاف کی طرف مقرر کردہ خطیب تھے تاہم اُنہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کی پرواہ نہیں کی اور حکومت سے علیحدہ ہو کر یکم اگست 2015ءکے روز ”تحریک لبیک پاکستان“ کی بنیاد رکھی‘ جسے ’ستمبر 2017ئ‘ میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ کروایا گیا۔ اُسی سال (17ستمبر2017ئ) انتخابی حلقے ’این اے 120 لاہور 3‘ پر ضمنی انتخاب میں ’تحریک‘ نے حصہ لیا اور ’سات ہزار سے زیادہ ووٹ‘ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ ذہن نشین رہے کہ یہ وہی حلقہ تھا جس پر 2013ءمیں مسلم لیگ کے قائد نواز شریف 91 ہزار 666 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے تھے بعدازاں کلثوم نواز نے اِس نشست پر 61 ہزار 745 ووٹ لیکر ضمنی انتخاب جیتا۔ اندرون لاہور کے کسی شہری علاقے سے قومی جماعتوں (نواز لیگ اور تحریک اِنصاف) کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی ایک نت نئی مذہبی سیاسی جماعت کی مقبولیت بڑھتی رہی اور جولائی 2018ءکے عام انتخابات کے بعد آج سندھ اسمبلی کی 3 نشستیں (پی ایس 115 کراچی ویسٹ فور‘ پی ایس 107 کراچی ساو¿تھ ون اور RSW-159) ’تحریک ِ لبیک پاکستان‘ کے نام ہیں‘ جن میں 2 عام انتخابات کے ذریعے حاصل ہوئیں جبکہ ایک خواتین کے لئے مخصوص نشست شامل ہے۔علامہ خادم رضوی کو پاکستان سے زیادہ عالمی ذرائع ابلاغ نے توجہ دی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ سے کوریج نہ ملنے کا حل انہوں نے سوشل میڈیا ذرائع کے بھرپور استعمال کی صورت نکالا جو کسی بھی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت سے زیادہ ’سوشل میڈیا آشنا‘ ثابت ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے نماز جنازہ کی براہ راست نشریات یوٹیوب پر سات گھنٹے سے زائد جاری رہیں‘ جسے اندرون و بیرون ملک لاکھوں صارفین نے دیکھا۔