کہانی در کہانی

بھکاری کے روپ میں نوجوان کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکاروں کو اِس بات کی توقع نہیں تھی کہ جامہ تلاشی کے دوران بھکاری نما نوجوان سے پاکستانی روپے کے علاوہ غیرملکی کرنسی سعودی ریال‘ امریکی ڈالر اور برطانوی پاو¿نڈز بھی برآمد ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسا جرم پولیس کی سمجھ میں نہیں آ رہا جو قانون کی کتابوں میں بطور جرم درج نہیں اور پولیس کے فیصلہ ساز چکرا کر رہ گئے ہیں‘سیالکوٹ پولیس نے عجیب و غریب حرکات و سکنات کے ساتھ انوکھی وضع قطع والے کپڑے اور چال ڈھال والے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا‘ جو سرراہ بھیک مانگ رہا تھا۔ حراست میں لینے کے بعد جب اُس کے ہاتھ منہ دھلوائے گئے جن پر سیاہی اور دیگر رنگوں سے انتہائی بدھے انداز میں ’میک اَپ کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ یاسر نامی نوجوان دراصل بھکاری نہیں بلکہ بھکاری کے روپ میں ’سوشل میڈیا سٹار‘ ہے جو اداکاری کر رہا تھا اور اپنی اِس اداکاری کی ’ٹک ٹاک ویڈیو‘ بنانے کے لئے اُس نے مذکورہ حلیہ اختیار کر رکھا تھا لیکن پولیس کے اعلیٰ حکام کے لئے اُس وقت معاملہ دلچسپ اور باعث تشویش صورت اختیار کر گیا جب اُس کے قبضے سے پاکستانی روپوں کے علاوہ غیرملکی کرنسی بھی برآمد ہوئی اور یہ سب کمائی اُس کی چند گھنٹوں کی ”محنت“ کا صلہ تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ’ٹک ٹاک‘ ستمبر 2016ءمیں ’بائٹ ڈانس نامی کمپنی کا متعارف کردہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جس کی مدد سے مختصر دورانیئے یعنی تین سے ساٹھ سیکنڈز کی ویڈیوز کے ذریعے تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں ٹک ٹاک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 80 کروڑ سے زیادہ ہے جن میں معروف شخصیات بھی شامل ہیں جو اپنی روزمرہ مصروفیات یا فرصت کے لمحات کا پرستاروں سے تبادلہ کرنے کے لئے ’ٹک ٹاک‘ ہی کا ترجیحاً استعمال کرتے ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’ٹک ٹاک‘ ویڈیوز زیادہ طویل نہیں ہوتیں۔ اِن ویڈیوز کو موسیقی اور خصوصی اثرات (سپیشل افیکٹس) کے ذریعے زیادہ خوبصورت (جاذب نظر) بنایا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ بنا قیمت (مفت) ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں 2 ارب سے زیادہ اینڈرائیڈ صارفین ’ٹک ٹاک‘ حاصل (ڈاو¿ن لوڈ) کر چکے ہیں اور پاکستان میں بھی ٹک ٹاک ویڈیوز نہ صرف دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں بلکہ دیگر سوشل میڈیا اکاو¿نٹس پر ’ٹک ٹاک ویڈیوز‘ کے تبادلے (شیئرنگ) کا تناسب اِس حد تک زیادہ ہے کہ رواں برس اکتوبر میں حکومت کو قریب دو ہفتے ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی عائد کرنا پڑ گئی تھی کیونکہ اِس کے ذریعے قومی سیاسی قیادت پر تضحیک آمیز تنقید میں اضافہ ہو رہا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول امریکہ میں ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی عائد ہے لیکن اِس پابندی کا تعلق اخلاقیات سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں چین کی کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور مالی فائدے کو روکنے کے لئے امریکہ اور اِس کے اتحادیوں بشمول بھارت نے اپنے اپنے ملکوں میں ’ٹک ٹاک‘ تک رسائی محدود کر رکھی ہے۔
پاکستان میں ’ٹک ٹاک‘ ہر اُس گھرکا حصہ ہے جہاں سمارٹ فون یا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے کیونکہ اِن سہولتوں کے بغیر ٹک ٹاک تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دیگر وسائل جیسا کہ فیس بک‘ ٹوئیٹر‘ انسٹاگرام اور یوٹیوب کا استعمال فاصلاتی تعلیم اور رابطہ کاری (پیغام رسانی) کے لئے بھی ہوتا ہے جس کی وساطت سے اساتذہ اور طالب علم یا اساتذہ اور والدین ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں لیکن ’ٹک ٹاک‘ ایک واحد ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جس کا سوائے تفریح طبع کوئی دوسرا مصرف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ حلقے ’ٹک ٹاک‘ کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں کہ اِن کے ذریعے نوجوان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے لئے اُن حدود و قیود کا بھی خیال نہیں رکھتے جن مشرقی تہذیب و اخلاقیات کا خاصہ ہیں یا مذہب تعلیمات میں تلقین کی گئی ہیں۔ کسی کی عیب جوئی‘ کسی کی غیبت اور کسی کی رنگت یا قدکاٹھ کا مذاق اُڑانا اور اُس کے کسی جسمانی نقص یا نقائص اور حسب نسب پر تنقید کسی صورت جائز نہیں۔ اِسی طرح غیراخلاقی جملہ بازی بھی ’ٹک ٹاک‘ کے ذریعے عام ہوئی ہیں‘ جو اِس سے قبل ایک خاص طبقے کی حد تک محدود تھیں لیکن اب گھر گھر پہنچ چکی ہیں‘ ۔ والدین‘ اساتذہ‘ علماءکرام‘ واعظین اور سماجی و سیاسی کارکنوںکو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے اِن محرکات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کس طرح نوجوان کٹی پتنگ کی طرح ہواو¿ں پر اُڑ رہے ہیں اُور اُن کی رہنمائی کرنے کا خاطرخواہ انتظام موجود نہیں۔ اقوام عالم کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی نوجوان جس طریق کو 1: تہذیب و تمدن‘ 2: آزادی¿ اُور 3: چھپی ہوئی صلاحیتوں کا ’تخلیقی اظہار‘ سمجھ بیٹھے ہیں درحقیقت یہ سراب ہے اُور ’ٹک ٹاک‘ و دیگر کئی خرابیاں معاشرے کی جن سطحو ںمیں سرایت کر چکی ہیں‘ وہاں سے حفظ مراتب کا جنازہ نکل چکا ہے۔ وقت ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلنے والی بُرائیوں کے مقابلے اِس میں چھپی اچھائیوں کے امکانات کو اُجاگر کیا جائے۔ تفصیلات دستیاب نہیں کہ سیالکوٹ پولیس نے کن دفعات کے تحت ’ٹک ٹاکر‘ کو گرفتار کیا اُور کس قانون کے تحت بطور سزا اُس کے موبائل فون میں موجود ویڈیوز ختم کیں لیکن اِس پوری کہانی سے ایک اُور کہانی نے جنم لیا ہے اُور وہ ہے ’گداگری کا منافع بخش پیشہ۔‘ اگرچہ یہ بات راز نہیں لیکن پاکستان کے ہر شہر میں پیشہ ور بھکاروں کے گروہ پھیلے ہوئے ہیں! ٹک ٹاکر کے قبضے سے غیرملکی کرنسی کا برآمد ہونا اپنی جگہ سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ غیرملکی کرنسی رکھنا بھی جرم نہیں جبکہ یہ رضامندی کے ساتھ کسی شخص کو بھیک یا تحفے میں دی گئی ہو! اصل نکتہ یہ ہے کہ ایک ٹک ٹاکر کی دیکھا دیکھی کہیں دیگر نوجوان بھی بھیک مانگنے ہی کو منافع بخش تصور نہ کرنے لگیں کیونکہ سوشل میڈیا کی ایک خرابی یہ ہے کہ اِس میں کسی کے ”دیکھا دیکھی عمل“ کرنے کو معیوب نہیںسمجھا جاتا بلکہ اِسے ’ٹرینڈ ‘ کہا جاتا ہے۔ روزگار کی تلاش میں اگر نوجوانوں نے بھکاری ٹرینڈ اپنا لیا تو کیا ہوگا؟ پاکستان میں صدقہ خیرات کرنے والوں کی کمی نہیں اور اگر پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے 110 کلومیٹر دور سات لاکھ آبادی والے شہر ’سیالکوٹ‘ میں ایک بھکاری غیرملکی کرنسی کما رہا ہے تو ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زائد آبادی والے لاہور اور دیگر بڑے اور صنعتی شہروں میں دیئے جانے والے صدقات و خیرات کا حجم و مالیت کیا ہوگی؟