کوروناکی دوسری لہر اور غیر سنجیدگی

وطن عزیز میں کورونا کی دوسری لہر میں بتدریج شدت آتی جارہی ہے جبکہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن اس معاملہ پرمتفق ہی نہیں ہو رہیںکس قدرافسوس کامقام ہے کہ کورونا کو بھی سیاست کی نذرکیاجانے لگاہے حزب اختلاف کی حکومت کے حوالہ سے تحفظات و شکایات کافی ہونگی ان میں بہت سے معاملات پر حزب مخالف حق پرہوگی حکومت کی کوتاہیاں بھی یقینا ہونگی تاہم سوال یہ ہے کہ کیا حساب کتاب برابر کرنے کے لئے یہی مناسب وقت ہے جس حکومت کو اپوزیشن روز اول سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں رہی اورپہلے دن سے اس کی کوشش وخواہش یہی رہی کہ حکومت کو چلتا کیاجائے اس کے لئے بارہا باالوسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سٹیبلشمنٹ سے بھی مدد مانگی جاتی رہی ہے ابھی چنددن قبل مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ایک انٹرویومیں حکومت کو رخصت کرنے کی شرط پر سٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کاراستہ کھلارکھنے کااعلان کیاہے وہ حکومت اب پونے تین سال نکال چکی ہے لے دے کے سوا دو سال کاعرصہ ہی رہ گیاہے گویا اپوزیشن پونے تین سال میں حکومت نہ گرا سکی اور امکان یہی ہے کہ اس کے بعد بھی حکومت کو گرایا نہیں جاسکے گا تو پھر کیونکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو سیاست کی نذرکیاجارہاہے اپوزیشن کاکہناہے کہ کورونا کو حکومت ہتھیار کے طورپراستعمال کرکے ہماری تحریک ناکام بنانا چاہتی ہے اپوزیشن کورونا کی شدت کو ماننے سے بھی انکار ی ہے لیکن حیرت ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے پوری ریاست میں پندرہ روزکے لئے سخت ترین لاک ڈاﺅن کااعلان کرکے اس پرعملدرآمد بھی شروع کردیاہے اور مزید حیرت یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اگر واقعی کورونا کی صورت حال سنگین نہیں تو پھر ن لیگ کی آزادکشمیر میں حکمت عملی بالکل ہی الٹ کیوں ہے اگر پاکستان میں کورونا مذاق ہے تو آزاد کشمیر میںکیا کورونا کی کوئی اور قسم حملہ آور ہوئی ہے جووہاں ن لیگ سخت ترین لاک ڈاﺅن کی طرف چلی گئی ہے اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وباءنے ایک بار پھر تباہی مچادی ہے دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں کئی ممالک نے لاک ڈاﺅن اور سمارٹ لاک ڈاﺅن کا سلسلہ شروع کیاہواہے پاکستان بھی کورونا وباءکی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی یہ دوسری لہر پہلی سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اس لئے احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی کی جائے کورونا لہر سے یوں تو سارے طبقات متاثر ہورہے ہیں تاہم شعبہ تعلیم پر اسکے بڑے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں طلبہ وطالبات پاکستان کا مستقبل ہیں ان طلبہ وطالبات کا سکولوں ‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بندش سے پہلے ہی 7 مہینے ضائع ہوچکے ہیں اور ان کا موجودہ تعلیمی سال بدستور ضائع ہونے کے امکانات ہیں اس لئے حکومت کو سرکاری ونجی تعلیمی اداروں کی بندش سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ‘ وفاقی وزارت تعلیم نے تعلیمی اداروں کیلئے اپنی تجاویز صوبوں کو بھجوارکھی ہیں کہ تعلیمی اداروں کو 24 نومبر سے 31 جنوری تک مرحلہ وار بند کر دیاجائے ‘دوسری تجویز میں 24 نومبر سے پرائمری سکولز، 2 دسمبر سے مڈل سکولز اور 15 دسمبر سے ہائیر سیکنڈری سکولز کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں آنے سے روکنے کے حوالہ سے ہے تاہم حکام اساتذہ کوبلانے پر بہ ضد ہیں تاکہ ان کو آن لائن ایجوکیشن کیلئے تیاری کرائی جائے ‘حکام نے تجویز دی ہے کہ مقامی طور پر انتظامات کئے جائیں ‘ٹیلی سکول ، ٹیلی ریڈیو سمیت آن لائن ایجوکیشن سسٹم کو لاگو کیا جائے اس سلسلہ میں اہم فیصلوں کے لئے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کا نفرنس آج 23نومبر کو ہورہی ہے جسمیں صوبے اپنی اپنی تجاویز دینگے کہاجارہاہے کہ تعلیمی سیشن کو 31 مئی تک بڑھانے ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات 2021ءمیں لینے کی تجویزپیش کی جائیںگی ۔ اجلاس میں اس بات کا حتمی فیصلہ کیا جانا چاہئے کہ آیا سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں بند ہوں گی یا ان میں تعلیمی سلسلہ جاری رہے گا ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ، طلباءوطالبات اور والدین سب پریشان ہیں اس لئے آج کے اجلاس میں آخری اورحتمی فیصلہ کیا جائے تاکہ سب گومگو کی کیفیت سے نکل سکیں۔کورونا کی مہلک وباءسے ملک میں مرنے والوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگاہے ‘ اس لئے اب سخت ترین اور متفقہ فیصلوں کاوقت آچکاہے سیاسی جماعتوں کو اب قدرے سنجیدہ ہونا ہوگا ایک دوسرے سے اختلاف کونفرتوں میں بدلنے کی روش پرنظرثانی کرتے ہوئے قوم کو سخت ترین احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لئے تیار کرانے میں سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالناہوگا ان سطورکی اشاعت تک پی ڈی ایم پشاور اورجے آئی سوات میں جلسے کرچکی ہونگی اور ان جلسوں سے یقینا حکومت کی صحت پرکوئی فرق بھی نہیں پڑا ہوگا کیونکہ اگر جلسوں سے حکومتوں کی رخصتی یقینی ہوتی تو ماضی میں پی ٹی آئی کا 126روزہ دھرنا ناکام نہ ہوتا جلسے ہوتے رہیں گے مخالفتیں کی جاتی رہیں گی لیکن یہ سب کچھ قوم کی صحت اور سلامتی کی بنیاد پر کسی بھی صورت نہیںہوناچاہئے حکومت کابھی فرض بنتاہے کہ حزب مخالف کو دلیل سے قائل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرے تلخ بیانات کے ذریعہ اپوزیشن کو مشتعل توکیاجاسکتاہے اسے تعاون کے لئے آمادہ ہرگز نہیں کیاجاسکتا حکومت اوراپوزیشن دونوںکو اپنے اپنے انتہاپسندعناصر کو ایک طرف کرتے ہوئے کورونا کے معاملہ پر متفقہ قومی پالیسی بنانے میں اب مزید تاخیر کسی بھی صورت نہیں کرنی چاہئے سماجی فاصلہ کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی اب فی الوقت اپنی رابطہ مہم ختم نہیں بلکہ کچھ عرصہ کے لئے عارضی طورپرملتوی کرنی چاہئے حکومت بھی وسیع تر قومی مفاد میں زیاد ہ وسعت قلبی کامظاہر ہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو مشتعل کرنے کے بجائے اسے قائل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرے فریقین کو اب اپنی اپنی اناﺅں کو ایک طرف رکھناہوگا کیونکہ مسئلہ اس وقت گھرکاہے اور گھرتوآخر ہم سب کاہے۔