حکومت کیخلاف اعلان جنگ کرچکے، میدان چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے، فضل الرحمن

 

 پشاور:پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکمرانوں کیخلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں،میدان جنگ سے واپس جانا گناہ کبیرہ ہے۔

ہمیں دھاندلی کر نے والا بھی معلوم ہے اور جو نامعلوم ہے وہ ہم سب کومعلوم ہے،ادارے پشت بانی سے پیچھے ہٹ جائیں اور دستبر دار ہو جائیں، آپ حکومت کیخلاف ہمارے ساتھ آواز ملائیں پھر ہم اور آپ بھائی بھائی ہیں، اگر ادارہ سیاسی بننے کی کوشش کریگا تو پھر تنقید بر داشت کرنا ہوگی اورنام بھی لیا جائیگا۔

،آپ کے سامنے کلمہ حق بھی کہا جائیگا، حکمرانوں کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے، کوئی آپ کے ساتھ نہیں ہے،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنے پیسے واپس مانگ رہے ہیں،یہ محترم لوگوں کا ملک ہے،محترم قوم پر رسوا حکمران کو مسلط نہیں کیا جاسکتا، پارٹیوں کے قائدین ایک صف ہو کر انشاء اللہ اس منزل کو حاصل کر ینگے۔
 
اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پی ڈی ایم کے تاریخی اور فقید المثال کانفرنس کے انعقاد پر پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے کارکنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اورا س کی کامیابی کیلئے جو آپ نے توانائیاں صرف کی ہیں پر خلوص جدوجہد اور محنت کی ہے اس کیلئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 

انہوں نے کہاکہ مجھے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ محترمہ نوازشریف اپنی دادی کے انتقال کی وجہ سے گفتگو نہیں کرسکیں،میں میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز شریف اور ان کے پورے خاندان سے ان کی والدہ کی وفات پر اظہار تعزیت کرتا ہوں اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔

انہوں نے کہاکہ اس موقع پر جہاں میں جسٹس سیٹھ وقار کی وفات پر اظہار تعزیت کرتا ہوں وہاں علامہ خادم حسین رضوی کی وفات پر اظہار تعزیت کرتا ہوں ان کے خاندان سے بھی تعزیت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ ایسے حالات میں ہم پشاور میں جلسہ عام منعقد کررہے ہیں جب اس سے پہلے ہم نے گوجرانوالہ میں اجتماعات کا آغاز کیا، کراچی اور کوئٹہ میں جلسہ کیا اور اب اہل پشاور نے ریفرنڈم ہی کر دیا، آپ نے دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔

 انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ الیکشن میں بد ترین دھاندلی کی گئی ہے،تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا تھا اور آج وہ آواز عام آدمی کی آواز بنتی چلی گئی اور یہ آواز پوری قوم کی آواز ہے اور آپ کے جلسوں سے حکمران جماعت اور ان کے پشتی بان بوکھلائے ہوئے ہیں، ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ان کے اقتدار کے قلع کو فتح کر نا ہے، ان کو یہاں سے ذلت و رسوائی کے ساتھ نکالنا ہے۔

 جنگ کااعلان کر چکے ہیں، اب میدان جنگ ہے اور میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے چیلنج کر دیا ہے اور واضح طورپر کہنا چاہتے ہیں،ہمارا موقف بڑا واضح ہے،دھاندلی ہوئی ہے، دھاندلی کی گئی ہے اور ہمیں دھاندلی کر نے والا بھی معلوم ہے اور وہ جو نامعلوم ہے وہ ہم سب کومعلوم ہے۔

 انہوں نے کہاکہ ہم فوج اور ادارے کا احترام کرتے ہیں اگر وہ ہمارا دفاعی ادارہ ہے،اگردفاعی ادارہ ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر۔

 انہوں نے کہاکہ اگر وہ سیاسی ادارہ بننے کی کوشش کریگا تو پھر تنقید بر داشت کرنا ہوگی، پھر یہ مت کہیں ہمارا نام نہ لیا کرو،پھر تمہارا نام بھی لیا جائے،پھر آپ پرتنقید بھی کی جائے گی اور پھر آپ کے سامنے کلمہ حق بھی کہا جائیگا۔

 انہوں نے کہاکہ آج بھی ہم آپ کو مہلت دیتے ہیں آپ ان کی پشت بانی سے پیچھے ہٹ جائیں، دستبر دار ہو جائیں،آپ کہہ دیں یہ ہماری حکومت نہیں ہے، آپ اس حکومت کے خلاف ہمارے ساتھ آواز ملائیں پھر ہم اور آپ بھائی بھائی ہیں، آپ سیاست میں کیوں آتے ہیں؟آپ اپنے دفاع سے کام رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

 انہوں نے کہاکہ آپ دھاندلی کریں وہ جرم نہیں، ہم دھاندلی کے خلاف احتجاج کریں تو آپ ہم سے خفا ہوتے ہیں،پھر خفا نہ ہوں پھر بر داشت کر نا لیکن بڑی وضاحت کیساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ دو سال کے عرصے میں تم نے پاکستانی معیشت کوتباہ کر دیا ہے اور جب کسی ملک کی معیشت گرتی ہے تو پھر وہ ریاست باقی نہیں رہ سکتی۔

  ریاست کے بقاء کا دارومدار مستحکم معیشت پر ہوا کرتا ہے جب ہم حکومت چھوڑ رہے تھے اور نئے الیکشن کی طرف جارہے تھے تو بجٹ میں کہا تھا کہ آئندہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد ہوگا اور اگلے سال ساڑھے چھ فیصد ہوگا اور آپ کو حکومت ملی اور پہلے سال تخمینہ 1.8پر آیا اور دوسرے بجٹ میں 0.4پر شرح آگئی۔

 انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تین روز پہلے اپنا بیان جاری کیا ہے کہ 1951-52کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کا سالانہ بجٹ 0.4پر آیا ہے یعنی اگلے سال آپ کی ترقی ہی نہیں ہے اور اس سے اگلے سال بھی کسی قسم کی ترقی نہیں ہے، پھر کہتے ہیں معیشت کی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔

 مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے اس قابل نہیں دنیا کا کوئی ملک ہمارے ساتھ بات کرے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی وزیر اعظم واجپائی بس کے ذریعے لاہور آیا، پاکستان کو ایک حقیقت کے طورپر تسلیم کیا؟ کیا وجہ تھی، اس وقت پاکستان معیشت کے طورپر مضبوط تھا اور بھارت تجارت کر نا چاہتا تھا، افغانستان پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا ہم سے تجارت کر نا چاہتا تھا لیکن افغانستان آج آپ کے ساتھ کوئی رابطہ کر نے کو تیار نہیں۔

 ایران آپ کے مقابلے میں ہندوستان کی لابی میں چلا گیا، چین ہمارا دوست تھا لیکن آج ان کے ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تباہ و برباد کر دیا ہے ایک ٹرمپ نے دوسرے ٹرمپ کو کہا چین کے منصوبے کو ناکام بناؤ۔ امریکیوں نے وہاں کے ٹرمپ کو مسترد کر دیا ہے انشاء اللہ پاکستانی عوام پاکستانی ٹرمپ کو بھی مسترد کر ینگے۔

انہوں نے کہاکہ سوویت یونین کیوں تباہ ہوا، دفاعی طورپر وہ طاقت ور تھا اور معاشی طورپر کمزور تھا۔ انہوں نے نام لئے بغیر وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ پاکستان کا گوربا چور بننا چاہتا تھا جس طرح اس کی غلط پالیسی نے سوویت کا خاتمہ کیا آج یہ پاکستان کا خاتمہ کر نا چاہتا ہے،عجیب بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کو کہتا ہے کہ مجھ سے این آر او چاہتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جوحکومت سیاسی طورپر ناجائز ہے، جو کار کر دگی کی بنیاد پر نا اہل اور معاشی قاتل ہے، آج ناکام خارجہ پالیسی ہے،نہ امریکہ اعتبار کر نے کیلئے تیار ہے، نہ چین کو آپ پر اعتبار ہے، بھارت پہلے سے آپ کا دشمن ہے، افغانستان اور ایران آپ پر اعتماد کر نے کو تیار نہیں، تم دوسرے کو کرپٹ کہتے ہو، سعودی عرب نے دو ارب ڈالر دیئے، امارات نے دو ارب ڈالر دیئے،آج دو سالوں میں آپ سے ناراض ہیں اور اپنے پیسے پر ڈر رہے ہیں آپ اس کے پیسے کو پیٹ میں نہ ڈال لو،اب دونوں اپنے پیسے واپس مانگ رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہاکہ آپ نے چین کا پیسہ تباہ کر دیا ہے، تم نے پاکستان کے دوستوں کو ناراض کیا ہے، کہتے تھے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گئیں یہاں تو خون اور زہر کی نہریں بہہ رہی ہیں تم دنیا کی نظروں میں بھی ناقابل اعتماد ہو، یہ قوم کوئی جانوروں کی قوم نہیں ہے جس کے سامنے جو چارہ ڈالو اور قبول کریں اور جیسے ہانکیں وہ ہانکتے چلے جائیں یہ محترم لوگوں کا ملک ہے،محترم قوم پر رسوا حکمران کو مسلط نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہاکہ آپ کی حکومت میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، بہت سے قائدین نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی باتیں کرتے تھے، آج سندھی، پشتون، بلوچ، پنجابی،کشمیری رورہا ہے، کشمیر کو تم نے بیچا اور کشمیر کے سوداگر بنے اور کشمیر کے لئے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہو، کیا اقتدار سے آنے سے پہلے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر نے کا فارمولا پیش نہیں کیا تھا؟ہم نے ستر سال تک کشمیریوں سے ایک ہی بات کی ہے آپ نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر نا ہے۔ 

انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کا بنیاد مقصد پاکستان کی بقاء کا تحفظ ہے،ملک کو بچانے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں ان نا اہلوں سے نجات پائیں گے تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ یہ حکومت بھی نا جائز، داخلہ پالیسیاں بھی ناجائز، انسانی حقوق، کشمیر اور فاٹا کی قاتل حکومت ہے۔

 انہوں نے کہاکہ ملک کے معاملات کو ٹھیک کر نے کیلئے میدان میں نکلے ہیں آپ نے استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ کافی طے ہو چکا ہے تھوڑا باقی ہے انشاء اللہ ہم اپنی منزل پائیں گے اور حقیقی پاکستان بنائیں گے،اسلامی، جمہوری پاکستان بنائیں گے، این ایف سی اور اٹھارہویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ہم نے سخت حالات میں جنگ لڑی ہے، ہم ایک صف میں کھڑے ہیں اس صف کو مضبوط بنانا ہے، سیاسی پارٹیوں کے قائدین ایک صف ہو کر انشاء اللہ اس منزل کو حاصل کر ینگے۔