قومی بقاءکا مسئلہ

 بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظرملک بھر کے تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق کورونا وائرس کے باعث تعلیمی ادارے ایک مہینہ بند کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے تاہم گھروں سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا سکولز چاہیں تو ہفتہ میں ایک دن بچوںکو بلاسکیں گے صوبے اپنی پالیسی خود بنانے میں بااختیار ہوں گے۔ 25 دسمبرسے 10جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔ گیارہ جنوری کے بعد کورونا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کوفوری طور پر آن لائن تعلیم شروع کرنے کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ہدایت جاری کی ہیں۔ جامعات کے ہاسٹلز میں طلبہ کا ایک تہائی حصہ رہائش پذیر رہے گا۔فنی تعلیمی کے ادارے جہاں ریگولر کلاسز کا طریقہ کار موجود نہیں ہے وہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہے گاوزرائے تعلیم کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ مارچ اور اپریل میں ہونے والے بورڈ امتحانات مئی اور جون میں لئے جائیں گے سرکاری سکولوں میں تعلیمی سال کا آغاز اپریل کے بجائے اگست میں کیا جائے، اس سلسلے میں گرمیوں کی چھٹیاں کم کردی جائیں گی ۔دوسری جانب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹرکے مطابق کورونا کیسز کی شرح 13فیصد تک پہنچ گئی ہے خیبر پختونخوا اور سندھ میں اس کی شرح میں تشویشن ناک اضافہ ہواہے۔ حکومت نے کاروباری مراکز کھولنے اور بند کرنے کا شیڈول بھی جاری کردیا ہے شادی ہالوں کےلئے بھی نئے ایس او پیز جاری کئے گئے ہیں۔ملک میں کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد روزانہ چار پانچ سے بڑھ کر چالیس پچاس تک پہنچ گئی ہے جبکہ وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد بھی ہزار ، ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔مختلف مقامات پر سمارٹ لاک ڈاﺅن بھی نافذ کیاگیا ہے لیکن عوامی سطح پر اب تک اس او پیز پر پابندی کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔سینٹی ٹائزر اور فیس ماسک استعمال کرنے کی ہدایات کو بھی ہم نے ہنسی میں اڑادیا ہے۔ ملک بھر میں سیاسی اجتماعات، جلسے ، جلوس اور ریلیاں بھی جاری ہیں، مظاہرے بھی ہورہے ہیں جن میں سماجی فاصلوں کا کوئی خیال رکھا جاتا ہے نہ ہی میل جول میں احتیاط برتی جارہی ہے۔ کورونا کے عالمی وباءنے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اب تک لاکھوں افراد اس وباءکا شکار ہوچکے ہیں پوری دنیا کی معیشت پر اس وباءکے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس وباءکو روکناصرف ڈاکٹروں، نرسوں ،محکمہ صحت اور حکومت کی ذمہ داری نہیں، پوری قوم کو موذی مرض سے بچاﺅ کےلئے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد ، احتیاط اور سادہ طرز زندگی اختیار کرکے ہم اس وائرس سے خود کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں سیاسی رہنماﺅں، کارکنوں، اساتذہ، سوشل ورکرز، صحافیوں،دانشوروں اور اہل علم و مکتب پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔یہ قومی بقاءکا مسئلہ ہے۔یہ دہشت گردی سے زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ جس سے نمٹنے کےلئے قومی یک جہتی اوراتحادواتفاق کی ضرورت ہے۔ اپنے مفادات کی دکانیں قومی مفاد کی خاطر عالمی وباءٹلنے تک بند رکھنی ہوں گی۔ ملک کے تعلیمی اداروں کی بندش سے پوری قوم کا تعلیمی نقصان ہورہا ہے لیکن یہ نقصان لاکھوں کروڑوں بچوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ حالانکہ تعلیمی ادارے سات مہینے بند رہنے کے باوجود پوری فیسیں بچوں سے وصول کرچکے ہیں اور سالانہ ترقیاتی فنڈ کے نام پر اضافی پیسے بھی بٹورے جارہے ہیں ۔حکومت اور سرکاری اداروں کو قومی بقاءکے مسئلے پردباﺅ میں آنے یا مصلحت پسندی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں، اس سلسلے میں سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور ان فیصلوں پر ریاستی طاقت سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔