خیبرپختونخوا کے محکمہ¿ زرعی تحقیق نے ’اَپریل دوہزار بیس‘ میں اِعلان کیا تھا کہ قبائلی اَضلاع پر مشتمل علاقوں میں زیتون کی کاشت شروع کی جائے گی اور یہ منصوبہ وفاقی حکومت کے فنی‘ تکنیکی اور مالی تعاون سے مکمل کیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں زیتون کی کاشت کے طریقے‘ اِس کی دیکھ بھال اور پھل سے تیل کشید کرنے جیسے مراحل کے بارے میں ”اِیگری کلچر ریسرچ سنٹر‘ پشاور“ میں خصوصی تربیت بھی شروع کی گئی جس کے علاو¿ہ زیتون کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کرنے کی مہمات بھی حکمت عملی کا حصہ بنائی گئیں۔ تیلدار ”زیتون“ کا پودا سخت جان ہے جس دیگر پھلدار درختوں کی نسبت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کے پھل دینے کی عمر و صلاحیت بھی غیرمعمولی طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اَضلاع (ڈیرہ اِسماعیل خان سے کوہاٹ) کی پٹی اور اَفغانستان سے جڑے قبائلی علاقے‘ آب و ہوا کے لحاظ سے ’زیتون کی کاشت‘ کے لئے موزوں ہیں۔صوبائی محکمہ¿ زراعت کے مرتب کردہ اِعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں چھ سے سات لاکھ ہیکٹر رقبہ زیتون کی کاشت کے لئے موزوں ہے اور اگر زیتون کی کاشت کو مذکورہ علاقوں میں منظم و صنعتی طور (بڑے پیمانے) پر کیا جائے تو اِس سے پاکستان کو سالانہ 3.6 ارب روپے تک ممکنہ و متوقع بچت ہو سکتی ہے‘ جو وہ زیتون کی درآمد پر خرچ کرتا ہے اور امکان یہ بھی ہے کہ پاکستان میں زیتون کی زیادہ کاشت ہونے سے اِسے برآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔ زیتون اور دیگر تیلدار اجناس (سویابین‘ پام آئل و دیگر) کی درآمد پر پاکستان سالانہ مجموعی طور پر 225.69 ارب روپے خرچ کرتا ہے۔ زیتون کی کاشت کےلئے موزوں علاقے فی الوقت بنجر ہیں‘ جہاں سے کوئی دوسری فصل حاصل نہیں ہو رہی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے حکمت عملی وضع کرنے کے بعد موزوں علاقوں میں بنجر پڑی اراضی کے مالک زیتون کی کاشت میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی و قبائلی اضلاع کے جن علاقوں (بشمول دیر‘ سوات‘ ایبٹ آباد اور نوشہرہ) میں زیتون کی کاشت پہلے ہی تجرباتی طور پر کی گئی ہے‘ اُن سے حاصل ہونے والے پھل کی طلب (مانگ و قدر) زیادہ نہیں رہی اور کاشتکار شکایت کرتے رہے ہیں کہ اُن سے 100 سے 120 روپے فی کلوگرام کے تناسب سے زیتون کا پھل خریدا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ¿ زراعت کو اُمید ہے کہ اگر زیتون کی کاشت کےلئے جن موزوں علاقوں (چھ سے سات لاکھ ہیکٹرز) کی شناخت ہوئی اگر اُن کے نصف حصے (تین لاکھ ہیکٹرز) پر بھی زیتون کاشت ہو جائے اور زیتون کے پھل اور اِس سے حاصل سے ہونے والے تیل کے معیار اور مارکیٹنگ درست طریقے سے ہو تو تیلدار اجناس درآمد کرنے والا پاکستان اِس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ زیتون کے تیل اور زیتون سے بنی ہوئی مصنوعات برآمد کرنے لگیں اور ایسا ہونا پاکستان کی زرعی پیداواری صلاحیت سے بھرپور استفادے و زرعی و خوردنی خودکفالت کی جانب اہم پیشرفت ہوگی لیکن زیتون کی کاشت کے حوالے سے حکمت عملی پر عمل درآمد خاطرخواہ تیزی سے نہیں ہو رہا جبکہ زرعی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباوطالبات کو بھی اگر اِن کوششوں میں حصہ بنا لیا جائے تو اِس سے زیادہ بہتر اور فوری نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ اپریل سے نومبر تک (کامل چھ ماہ کے عرصے) ہوئی پیشرفت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا نے زیتون کے 5 کروڑ پودے لگانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیتون کی کاشت کے موزوں علاقوں کی نشاندہی کی جائے جبکہ نشاندہی‘ تربیت اور شعور اُجاگر کرنے جیسے تینوں مراحل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں اور اگر چھ ماہ بعد بھی فیصلہ ساز اُسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے بات شروع ہوئی تھی تو اندیشہ ہے کہ زیتون کی صنعتی پیمانے پر کاشت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔اِطلاعاً عرض ہے کہ خیبرپختونخوا کے وہ قبائلی اَضلاع (بشمول باجوڑ‘ کرم‘ شمالی اُور جنوبی وزیرستان) جو کہ زیتون کی کاشت کے لئے انتہائی موزوں بتائے جاتے ہیں مجموعی قبائلی اضلاع کے پچاس فیصد سے زیادہ ہیں اور اِن علاقوں میں سالانہ ترقیاتی حکمت عملی کے تحت کاشتکاروں کو زیتون کے درخت لگانے میں مدد دی گئی۔ کورونا وبا سے قبل 1680ہیکٹرز پر زیتون کے نئے درخت لگانے کی ایک حکمت عملی تیار تھی لیکن لاک ڈاو¿ن اور دیگر مشکلات کی وجہ سے مذکورہ درخت نہیں لگائے جا سکے حالانکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محکمہ¿ زراعت کے زیتون کی کاشتکاری سے متعلقہ شعبے کے اہلکاروں نے مذکورہ عرصے میں تنخواہیں اور مراعات تو حاصل کیں لیکن اُنہوں نے زیتون کی کاشت جیسی قومی ذمہ داری ادا نہیں کی حالانکہ زراعت واحد ایسا پیداواری شعبہ ہے‘ جس میں کورونا سے بچاو¿ کے لئے نہ صرف سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے بلکہ کاشتکاری اور زراعت پر زیادہ توجہ دینے سے کورونا وبا کے منفی معاشی اثرات میں بھی بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ درخت کوئی بھی ہو‘ ماحول دوست ہوتا ہے۔ شجر کاری کہیں بھی ہو‘ اِس کے ساتھ روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ نوشہرہ‘ مردان‘ سوات‘ ایبٹ آباد اور پشاور میں زیتون کی کاشت کے تجربات کامیاب ہوئے ہیں لیکن قبائلی اضلاع زیتون کے حوالے سے زیادہ موزوں ہیں نوشہرہ کے قریب 43ایکڑ رقبے پر 7 ہزار زیتون کے درخت لگانے کے ایک تجربے سے معلوم ہوا کہ فی درخت 25 کلوگرام تک زیتون کا پھل حاصل ہوسکتا ہے جس سے مجموعی طور پر 4 ہزار لیٹر زیتون کا تیل کشید کیا جا سکتاہے۔ زیتون خیبرپختونخوا کی قسمت بدل سکتا ہے۔ اِس سے غربت میں کمی اور اُس اراضی سے آمدنی ممکن ہے‘ جو فی الوقت بنجر پڑی ہے لیکن سہانے خواب کی تعبیر کےلئے جن عملی اقدامات اور عملی مثالوں کی ضرورت ہے اُن کےلئے زرعی شعبے سے متعلق علوم کے تحصیل یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے جذبے‘ صلاحیتوں اور علم پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور اُنہیں زیتون کی کاشتکاری میں شریک سفر کرنے سے کم وقت اور کم خرچ میں بہتر (مفید) نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔