ہم نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی تھی کہ جب رشتوں میں مٹھاس اورمحبت کی پیاس ابھی باقی تھی تعلقات کی بنیاد خلوص پرمبنی اوراسی لئے مضبوط ہواکرتی تھی محبت واحترام کے جذبات ابھی دلوں میں زندہ تھے ہمارا گھربھی روایتی پختون گھرانوں کی طرح مشترکہ خاندانی نظام پرمشتمل تھا ‘دادا،دادی اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ ایک ہی گھرمیں رہاکرتے تھے ہم نے جب ہوش سنبھالناشروع کیاتو آس پاس پرخلوص رشتوں کو چلتے پھرتے محسوس کیا‘ہمارے دادا غیاث احمد حقیقی معنوں میں ایک بلند پایہ عالم دین،ایک کامیاب استاد ،بہترین صحافی اور اچھے لکھاری تھے ‘انہیں اردو،پشتو،فارسی اورعربی پرعبور حاصل تھااسی ماحول میں جب ہم سن شعور کوپہنچے تو اپنے سامنے تین آئیڈیل پائے ‘دینی ودنیاوی معاملات کی حدتک اپنے دادا جان کو آئیڈیل بناکران کے نام کو اپنے نام کاانمٹ حصہ بناڈالا اوراسی کی برکت ہے کہ آج ہم چند الفاظ تحریر کرنے کے قابل ہیں مہمان نوازی ،خلوص اوردوسروں کی مدد کے حوالہ سے والد محتر م نثاراحمد شاکر آئیڈیل قرارپائے ‘اسی گھر میں ہمارے تایا محترم بشیر احمد بھی رہتے تھے ہم نے انکو شروع سے ہی نظم وضبط اوررکھ رکھاﺅ کاحامل پایا انہوںنے بھرپور اور کامیا ب زندگی گزاری اورپھرنومبر کی چوبیس تاریخ کو علم وکردار کاوہ روشن سورج بھی غروب ہوگیا جو کم وبیش آٹھ عشرے تک تعلیم وتربیت کی روشنی بکھیرتارہاہم نے ان کو بہت قریب سے دیکھا وہ کامیاب ترین معلم تھے ان کے لگا ئے ہوئے پودے بعدازا ں گھنے اورتناور درختوں میں تبدیل ہوکر سالوں تک اپنی چھاﺅںسے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو مستفید کرتے رہے انہوں نے بطور معلم کبھی وقت ضائع نہیں کیا نہ ہی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد عقیدت کی حد تک انکااحترام کرتے رہے اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوںنے کبھی پیسے لے کرٹیوشن نہیں پڑھائی جماعت ہشتم اوردہم کے جب بورڈز کے امتحانات قریب آجاتے تھے تو وہ اپنے شاگردوں کو اضافی وقت میں مفت پڑھایا کرتے تھے ‘ان کامضمون انگریز ی ہواکرتاتھا چنانچہ بورڈ امتحانا ت والے طلبہ کو وہ ایک گھنٹہ پہلے بلاکر پھر چھٹی کے ایک گھنٹہ بعد چھوڑتے تھے یوں ان کوپوری طرح سے بورڈامتحان کے لئے تیار کرتے ‘بحیثیت استاد،ہیڈماسٹر اورپرنسپل کبھی ایک پیریڈ بھی مس نہیں ہونے دیا ‘وقت کے ضیاع کے انتہائی خلاف تھے اصولوں کی پابندی مرتے دم تک کرتے رہے جب سردارعنایت اللہ گنڈاپور وزیر اعلیٰ تھے تو انہیں اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے لئے ایک قابل استاد کی تلاش شروع ہوئی انہوں نے اس کاذکر سیکرٹری تعلیم سے کیاتو انہوںنے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سکولز الٰہی بخش اعوان کو ذمہ داری سونپ دی ان کی نگاہ بابوجی پرپڑی اور ان کو کہہ دیاکہ وزیر اعلیٰ کے بچوں کو پڑھاناہے انہوں نے انکار کیا مگر اعوان صاحب کے اصرار پر وزیر اعلیٰ سے ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے تعارف کے بعد انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہاکہ میں آپ کے بچوں کو پڑھانے آیا کروں گامگرمیری تین شرطیں ہونگی وزیر اعلیٰ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے کہ عجیب استاد ہے صوبہ کے چیف ایگزیکٹو کے سامنے شرائط رکھ رہاہے بہرحال ان کے استفسار پرکہنے لگے کہاکہ وقت ‘معائنوں اورامتحانات کاسلسلہ جاری ہے اس لئے مجھ پر وقت کی پابندی نہیں ہوگی جس وقت بھی فراغت ہوگی اسی وقت آیا کروں گا دوسری شرط یہ ہے کہ مجھے لینے سرکاری گاڑی نہیں آئے گی میں اپنی سائیکل پر آیا کروں گا وزیر اعلیٰ نے متجسسانہ انداز میں تیسر ی شرط پوچھی تو کہنے لگے کہ زندگی میں کبھی بھی پیسے لے کرنہیں پڑھا یا اس لئے میں ایک پیسہ بھی بطورٹیوشن فیس نہیں لوں گا یہ سنناتھاکہ وزیر اعلیٰ کرسی سے اٹھے ان کی طرف بڑھے اور ماتھا چوم کر گلے لگایا اور پھر عنایت اللہ گنڈاپور کے مرنے تک دونوں کے درمیان قریبی تعلق برقراررہابابوجی افسانہ نگاری بھی اور شاعری بھی کرتے رہے خاک تخلص تھا ان کے پاس صدرایو ب ،بھٹو ،اصغر خان ،کے ایچ خورشید ،اندرا گاندھی ،اردن کے سابق حکمران شاہ حسین ،معمر القذافی ،شاہ فیصل ،سابق امریکی صدر کینیڈی ‘ جیکولین کینیڈی سابق شہنشاہ ایران اور نیلسن مینڈیلاتک کے خطوط اور ان کی دستخط شدہ تصاویر کاذخیرہ موجو د رہا بھرپورزندگی گزارنے کے بعد چوبیس نومبر کو رخصت ہوئے تو احساس ہونے لگاہے کہ کتنا قیمتی ہیرا کھو دیاہے ۔اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے ۔آمین