وفاقی کابینہ کی قانون سازی سے متعلق کمیٹی نے جنسی زیادتی کے خلاف دو نئے قوانین کی منظوری دے دی۔ زیادتی اور ریپ میں ملوث ملزمان کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 ءکے مسودے کے مطابق کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کئے جائیں گے ¾ متاثرین کے طبی معائنے میں غیر انسانی طریقہ کار اپنانے نہیں دیا جائے گا۔ زیادتی کے مقدمات پر ٹرائل ان کیمرہ ہوں گے۔ تحقیقات اور ٹرائل میں جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا۔خصوصی عدالتوں کے لئے سپیشل پراسیکیوٹرز تعینات کئے جائیں گے۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیاں تحقیقات کریں گی۔ تشدد کرنے والوں کا ڈیٹا نادرا کے ذریعے رجسٹر کیا جائے گا۔زیادتی کے ملزمان کو نامرد کرنا متاثرین کی رضا مندی سے مشروط ہوگی۔ زیادتی کا شکار افراد سے جرح صرف جج اور ملزم کا وکیل کر سکے گا۔ اس قانون میںزیادتی کے مجرم کے لئے 10سے 25 برس قید کے علاوہ عمر قید اور موت کی سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں جس کا فیصلہ کیس کی نوعیت کے مطابق عدالتیں کریں گی۔ زیادتی کا شکار افراد کے طبی معائنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگا وزارت قانون نے ضابطہ فوجداری میں لفظ زیادتی کی تعریف میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے زیادتی کی تعریف میں اب ہر عمر کی خواتین اور 18 سال سے کم عمرکے مرد شامل ہونگے۔جنسی زیادتی روکنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت رواں سال ملک کے مختلف شہروں میں کم عمربچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات کے پیش نظر محسوس کی گئی۔چار سال سے دس سال تک کی عمر کی بچیوں کے ساتھ زیادتی اور جرم چھپانے کے لئے انہیں تشدد کے ذریعے قتل کرنے کے ہولناک واقعات کے بعد پورا معاشرہ سراپا احتجاج بن گیا تھا۔ جن معاشروں میں بے راہ روی عام ہے وہاں بھی کم سن بچوں کو شیطانی ہوس کا نشانہ بنانے اور پھر گلا گھونٹ کر قتل کرنے کے واقعات نہیں ہوتے ¾ایسے انسانیت سوز جرائم سے متاثرہ خاندان ہی اپنے جگر گوشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ننھی کلیوں کو بے دردی سے مسل دینے کے دکھ کا احساس کرسکتے ہیں ۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور انہیں قتل کرنے والے مجرمان سخت ترین سزاﺅں کے مستحق ہیں۔ایسے لوگوں کو قانونی معاونت بھی فراہم نہیں کرنی چاہئے۔ تعزیری قوانین کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم کو روکنا ہے۔ زیادتی کے عام واقعات اوربچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے جرائم دو مختلف نوعیت کے ہیں ان سب کو ایک ہی قانون کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات کے ملزموں کو اسلامی قوانین کے مطابق سخت ترین سزائیں دی جائیں۔دین اسلام نے چور کے ہاتھ کاٹنے، زانی کو سنگسار کرنے اور قاتل کی گردن اتارنے کی سزا اسی لئے مقرر کی ہے کہ جرائم پیشہ لوگ سنگین سزاﺅں کے خوف سے جرم سے توبہ کرلیں۔اگر اسلام کے تعزیری قوانین ہی نافذ کرنے کا اہتمام کیا جائے تو معاشرے سے کرپشن، قتل، چوری، رہزنی ،بدکاری اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کا خاتمہ یقینی ہے¾ مصنوعی نوعیت کے اقدامات کی وجہ سے نہ صرف جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طریقے سے دولت جمع کرتے ہیں اور معاشرے میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں لوگ ان سے مرعوب ہوتے ہیں اور خود بھی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں دیکھا جائے تو تمام معاشرتی برائیوں کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب اس کے حوالے سے اجتماعی اور انفرادی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے۔