جمہوریت: حاصل وصول

اِقتصادی اَمور سے متعلق معروف تجزیہ کار ’ڈاکٹر فرخ سلیم‘ نے اپنی حالیہ تحریر ’زیرو سم (Zero-sum)‘ کے زیرعنوان (حاصل وصول صفر) حزب اقتدار و حزب اختلاف کی کارکردگی کا موازنہ پیش کرتے ہوئے ایک مرحلے پر ’جمہوریت‘ کی 2 اشکال کا ذکر کیا کہ ایک قسم کی جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں طور طریقے نمائشی ہوں جبکہ دوسری قسم کی جمہوریت ’باثمر‘ کہلاتی ہے جس میں حزب اقتدار و حزب اختلاف کی نسبت ’جمہور (عام آدمی)‘ کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت جمہوریت سے متعلق فاضل کالم نگار (ڈاکٹر فرخ سلیم) کے یہ دونوں تصورات غلط ہیں تحقیقی و شماریاتی حوالوں میں ماضی و حال کے واقعات کو بیان کر کے پیغام رسانی میں مہارت رکھنے والے فاضل کالم نگار جمہوریت کے علاوہ کسی دوسرے نظام ِحکومت کو خارج ازاِمکان سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک مرحلے پر اُنہوں نے چین کے طرزحکمرانی کا حوالہ دیا اور تسلیم کیا کہ چین کے 88 فیصد عوام کو خط غربت سے بلند کیا گیا لیکن چین کے طرزحکمرانی کو ’سیاسی بادشاہت‘ قرار دے کر اُسے بھی ’ردّی کی ٹوکری‘ میں پھینک دیا۔جمہوریت کیا ہے؟ ایسا طرز حکمرانی جس کابنیادی نکتہ ’آزادی ہے اور جس میں عوام براہ راست اپنے لئے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جمہوریت کب سے شروع ہوئی یہ تو معلوم نہیں لیکن اِس تذکرہ یونان کی تاریخ میں ملتا ہے۔ لفظ ڈیموکریسی کا ماخذ بھی 2 یونانی الفاظ ہی ہیں۔ ڈیموس (Demos) کا مطلب ہے لوگ اور کراٹوس (Kratos) کا مطلب ہے طاقت یعنی ’اجتماعی طاقت۔‘ دنیا کی پہلی جمہوریت 507 سے 508 قبل مسیح یونان ہی میں قائم ہوئی لیکن ظاہر ہے کہ اِس کا تصورکہیں پہلے سامنے آیا ہوگا جس نے ارتقائی مراحل کرتے ہوئے موجودہ حکمرانی کا شکل اختیار کی لیکن یونان سے شروع ہونے والی جمہوریت کی سب سے پہلی مخالفت یونان ہی میں سامنے آئی اور یہ مخالفت کسی عام شخص کی جانب سے نہیں بلکہ یونانی فلسفے کو عروج و کمال تک پہنچانے والے سقراط کی تھی۔ اِس مرحلہ فکر پر رواں ماہ (نومبر دوہزاربیس) منظرعام پر آنے والے فرانسیسی صدر کا ایک بیان پیش خدمت ہے۔ جس میں ایمونوئل میکرون نے مسلمان دنیا بشمول فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”جمہوریت کے بارے میں اپنی سوچ‘ نظریہ اور عقیدہ بیان کریں۔“ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں فرانسیسی مسلمانوں کو یہ دھمکی دی ہے کہ اگر وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تو پھر فرانس سے نکل جائیں۔ ذہن نشین رہے کہ فرانس میں یورپی ممالک کی سب سے بڑی مسلمان آبادی ہے یعنی’47لاکھ‘ سے زیادہ مسلمان فرانس میں آباد ہیں جو فرانس کی کل آبادی کا 5.8 فیصد ہیں۔ فرانس خود کو ”جدید جمہوریت کا مرکز“ سمجھتا ہے ‘جمہوریت اُس نظریئے کا نام ہے جس میں جمہور کی مرضی (پسند و ناپسند) مقدم ہوتی ہے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں‘ محققین اور سیاست دانوں نے جمہوریت کا مطلب ’عام انتخابات کے انعقاد‘ کو سمجھ رکھا ہے یعنی اگر پاکستان میں ایک خاص آئینی مدت اور ایک خاص آئینی عمل کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں مساوات کی بنیاد پر ہر خاص و عام کی رائے (ووٹ) کو شمار کیا جائے تو اِسے ’جمہوریت‘ کہا جائے گا حالانکہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت جس آزادی و مساوات کا نام ہے اُس پر کسی بھی قسم کی پابندی لاگو نہیں ہوتیں۔ ”آزادی“ یعنی اِنسان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہو۔ وہ اظہار رائے میں آزاد رہے۔ اپنے عقائد میں آزاد رہے۔ انتخاب و فیصلے میں آزاد رہے۔ جو کہنا چاہے کہہ سکے اور مساوات کے بغیر بھی جمہوریت وجود میں نہیں آتی۔ پہلی بات یہ ہے کہ کوئی ملک خود کو یہ کہتے ہوئے جمہوری نہیں کہہ سکتا کہ جمہوریت کے اصول و تعریف بھی وہ خود وضع کرے گا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں جولائی 2018ءکے عام انتخابات پر قریب 22 ارب روپے (فی ووٹ 198روپے) خرچ ہوئے تھے اور اگر وسط مدتی یا 2023ءمیں پوری ہونے والی آئینی مدت کے بعد انتخابات ہوتے ہیں تو اُس پر (عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ) کم سے کم 30 ارب روپے خرچ ہوںگے۔