چھٹیوں کا اعلان اور سوشل میڈیا

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند کرنے سے متعلق فیصلہ بوجھل دل سے کیا، امید ہے جنوری تک تمام تعلیمی ادارے کھل جائیں گے ۔ بچوں میں جس طرح میری مقبولیت بڑھی ۔اس پرخوش نہیں ہوں ۔ بچوں کو چھٹیوں کی بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہئے ایک انٹرویو میں وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چھٹیوں کے حوالے سے میری متعلق کئی باتیں مزاحیہ ہیں سوشل میڈیا کا دور ہے لوگ ہر بات میںتفریح کا پہلو تلاش کرتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے عارضی طور پر بند کرنے سے متعلق فیصلہ قومی اتفاق رائے سے ہوا ہے کیونکہ تعلیم سے پہلے بچوں کی صحت اولین ترجیح ہے چھوٹی دنیا حقیقتوں سے آگاہ نہیں ہے ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بچوں کی طرف سے دی جانے والی دعائیں اچھی لگی ہیں ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ہم تو ہاسٹل میں بھی روتے پیٹتے جاتے تھے۔کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر ملک بھر میں تعلیمی ادارے دس جنوری تک بند کرنے کے اعلان پر عوامی رابطوں کی ویب سائٹس پر بہت دلچسپ تبصرے ہنوز جاری ہیں۔
سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی چھٹیوں کے اعلان پر شفقت محمود کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا،طلبا کا کہنا تھا کہ وزیرتعلیم ان کے ہیرو ہیں اور سکول بند کرکے انہوں نے اتنی مقبولیت حاصل کرلی ہے کہ اگلا وزیراعظم وہی ہوگا۔ کسی نے دعا دی کہ خداکرے کہ شفقت محمود کے باتھ روم میں پانی کبھی ختم نہ ہو۔وہ پھل لینے جائیں تو ان کے حصے میں میٹھے پھل آجائیں، ان کی بیوی اور بچے فرمانبردار ہوں،ان کے گھر میں بجلی اور گیس کی کبھی لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔وہ مٹی کو ہاتھ لگائیں تو سونا بن جائے، کورونا کبھی ان کے گھر کا راستہ نہ دیکھ پائے۔ان کی گائے کا دودھ کبھی سوکھ نہ پائے۔ ان نیک خواہشات اور دعاﺅں سے کوئی کیوں خوشی سے پھولے نہ سمائے، وزیرتعلیم کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوجوانوں میں مقبولیت بڑھنے سے وہ زیادہ خوش نہیں ہوئے۔ شاید انہیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ والدین وزیرتعلیم کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں،بہت دعاﺅں کے بعد تعلیمی ادارے ایک ڈیڑھ ماہ قبل کھل گئے تھے اور والدین نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اب پھر گھروں میں اودھم مچانے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ والدین بے چاروں کو دوہری پریشانیوں کا سامنا ہے ایک طرف سکول کی چھٹیوں کے باعث گھروں میں ہنگامے برپاہوں گے دوسری جانب سکول بند ہونے کے باوجود انہیں پوری فیسیں بھی دینی پڑیں گی۔اور بچے بھی کچھ نہیں سیکھ پائیں گے اور ان کا پورا تعلیمی سال ضائع ہوگا۔حکومت نے 24دسمبر تک آن لائن کلاسیں جاری رکھنے اور 25دسمبر سے 10جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ گیارہ جنوری سے سکول دوبارہ کھولنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ جبکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن، ہزارہ کے بالائی علاقوں اور ضم اضلاع میں سردی کی شدت کے باعث تعلیمی ادارے یکم مارچ سے پہلے کھولنا ممکن ہی نہیں ہے، ان علاقوں میں15 مارچ 2020کو بند ہونے والے سکول اب یکم مارچ 2021کو ہی کھل سکیں گے وہ بھی کورونا کی صورتحال بہتر ہونے سے مشروط ہے۔ گویا خیبر پختونخوا کے طلبا و طالبات کا پورا ایک سال ضائع ہوگیا۔ بے شک تعلیم کسی بھی قوم کے لئے ترقی کی واحدکنجی ہے تاہم بچوں کی زندگی سے تعلیم زیادہ اہم نہیں، یہ صرف خیبر پختونخوا یا پاکستان کا مسئلہ نہیں، پوری دنیا اس وباءکی لپیٹ میں ہے۔ مہلک وباءسے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں کروڑوں افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، دنیا بھر کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ روزگار کے دروازے بند ہورہے ہیں مشرق وسطی کے ممالک نے اپنے لیبر قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی کارکنوں کو فارغ کردیا ہے جن میں ہزاروں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ جبکہ ملک کے اندر بھی بے روزگاری اور مہنگائی میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مہلک وباءسے خود کو بچانا ہے تو حکومت اور صحت کے اداروں کی طرف سے وضع کردہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔اسی میں ہماری اور ہمارے بچوں کی بقاءمضمر ہے۔