پشاور کے شعبہ بازار‘ کوئٹہ کا ’ڈبل بازار‘ اور مالاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام سوات کے مینگورہ و گوگدرہ بازاروں میں قدر مشترک (وجہ¿ شہرت) اور کشش ’موٹر گاڑیوں‘ کے فاضل پرزہ جات (سپئرپارٹس) ہیں‘ جن کی خریدوفروخت کے یہ مراکز قانونی اور غیرقانونی کاروباری سرگرمیوں کے گڑھ ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ افغانستان سے بذریعہ غلام خان‘ چمن اور طورخم نامی سرحدوں کے راستے سازوسامان کی نقل و حمل پر بڑی حد تک قابو پانے کے باوجود بھی غیرروایتی راستوں سے آنے والی اشیا میں اکثریت موٹرگاڑیاں یا اُن کے فاضل پرزہ جات ہی ہوتے ہیں اور وہ کاروبار جو پہلے اَفغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں کی حد تک محدود ہوا کرتا تھا‘ اب پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا بھی شہر ہوگا جہاں سپئرپارٹس کے ایسے غیرقانونی مراکز نہ ہوں یا جہاں ’افغان پرزوں‘ کے نام سے گاڑیوں کی استعمال شدہ اشیا نہ ملتی ہوں۔ کسی ملک کی معیشت و صنعتی سرگرمیوں کے لئے اُس کے ہاں سرحدوں کی نگرانی کس قدر ضروری ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان کی ترجیحات کیا ہیں‘ یہ جاننے کے لئے 30 نومبر (دوہزاربیس) کے اُس فیصلے پر غور کیا جاسکتا ہے جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے وزارت داخلہ کے (بلحاظ عہدہ) ایڈیشنل سیکرٹری کی نگرانی میں ”خصوصی ڈویژن“ تشکیل دیا تاکہ سرحدی انتظامات کے نظام کو مزید مو¿ثر بنایا جاسکے۔ سرحدی نگرانی کے نئے ادارے کے قیام کے بعد اِس کی وزارت کا اعلان بھی متوقع ہے‘ جس کا بنیادی کام (مبینہ طور پر) سرحدوں کی حفاظت اور انتظامات سے متعلق بروقت معلومات اور اعدادوشمار فراہم کرنا ہوگا لیکن المیہ یہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں حکومتی اِداروں کی کارکردگی اور معلومات و اعدادوشمار پر بھروسہ کیا گیا وہاں وہاں مسائل نے بحران کی شکل اختیار کی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اِس عزم کا اظہار اپنی جگہ اہم ہے کہ ”اُن کی حکومت آزاد لیکن محفوظ سرحدوں پر یقین رکھتی ہے“ جبکہ آزادی اور حفاظت جیسے ’سافٹ ٹارگٹس‘ کا حصول صرف اُسی صورت ممکن ہوتا ہے جب سرحدوں کی نگرانی کرنے والے درجنوں محکموں میں ایک اور کا اضافہ کرنے کی بجائے پہلے سے موجود اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور اداروں کی کارکردگی کا احتساب کیا جائے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ سینکڑوں کی تعداد میں کنٹینرز بنا کسٹم ڈیوٹی اَدا کئے اَفغانستان گئے جس سے قومی خزانے کو اَربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن نقصان پہنچانے والے کسی ایک بھی کردار کو منظرعام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی یہ اَربوں روپے وصول ہو سکے! ہمیں معلوم ہوا کہ شوگر ملیں اَفغانستان چینی برآمد کرنے کے لئے خالی ٹرکوں کی آمدورفت کرتی ہیں لیکن اِس علم کے باوجود بھی فائدہ اِیران سے غیرقانونی طور پر پیٹرولیم مصنوعات اِسمگل ہو کر آتی ہیں جو صرف متصل صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اِسماعیل خان میں بھی ”اِیرانی پٹرول“ کے نام سے ”سرعام“ فروخت ہوتا ہے لیکن نہ تو پٹرولیم کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوئی اور نہ ہی اِس کی خریدوفروخت جیسے دھندے کو روکا گیا کہ جنس (پیٹرول) کی طلب کم یا ختم ہو جائے تو غیرقانونی راستوں سے پٹرولیم لانے کا کاروبار بھی کم ہوتا چلا جائے گا لیکن جب سرحدوں کی نگرانی کی بات کی جاتی ہے تو ایسا کچھ بھی عملاً دیکھنے میں نہیں آرہا‘ جس سے ”قومی مفاد کا تحفظ“ ہو رہا ہو۔رواں ہفتے خیبرپختونخوا کے ’مالاکنڈ ڈویژن‘ میں گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات (سپیئر پارٹس) کی فروخت حسب حکم ’ہائی کورٹ بینچ‘ روکنے کے لئے سوات پولیس نے کاروائیاں کیں اور اِس دوران ساٹھ ایسی موٹر گاڑیاں ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے جنہیں فاضل پرزہ جات کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ماضی میں گاڑی کا کوئی ایک پرزہ یا چند ایک پرزے ہی سپیئرپارٹس کی غیرقانونی مارکیٹ سے خریدے جاتے تھے لیکن اَب پوری کی پوری گاڑی ایسے فاضل پرزہ جات سے بنائی جاتی ہے جو قانونی طور پر درآمد نہیں ہوتے اور اِن پرزہ جات میں ایک تعداد چوری شدہ گاڑیوں سے بھی حاصل کردہ اشیا کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں سے چوری شدہ گاڑیوں کا ”پہلا ٹھکانہ“ مالاکنڈ ڈویژن کے طول و عرض میں قائم ایسی ”موٹر ساز ورکشاپس“ ہوتی ہیں جن کی مہارت اور غیرمعمولی کاروباری تجربہ دیدنی ہے! ذہن نشین رہے کہ 952 مربع کلومیٹرز پر پھیلا مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات کی سات تحصیلوں (بابوزئی‘ بریکوٹ‘ چارباغ‘ خوازہ خیلہ‘ بحرین اور مٹہ) کو ’سب ڈویژنز‘ کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن کو مجموعی طور پر خاص قانون کے تحت ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہاں پاکستان کے دیگر بندوبستی علاقوں (صوبوں اور اضلاع) کی طرح ٹیکس وصولی کا نظام رائج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مالاکنڈ کے طول و عرض میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں غیردستاویزی گاڑیاں موجود ہیں۔ ایسی گاڑیاں بھی ہیں جو ناکارہ (سکریپ) قرار دیکر درآمد کی جاتی ہیں اور اُن میں پرزہ جات تبدیل کر کے اُنہیں دوبارہ کارآمد بنا دیا جاتا ہے۔