بلیک آو¿ٹ

وفاقی کابینہ اجلاس (9 نومبر) کے فیصلوں میں یہ فیصلہ بھی شامل تھا کہ .... ”بھارت کے ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات دیکھنے کےلئے پاکستان سے ’آن لائن‘ رقومات کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی جائے۔“ کابینہ اراکین کے سامنے جب یہ معاملہ اُٹھایا گیا کہ پاکستان میں بھارت کے تفریحی چینلوں کو دیکھنے والے اپنے کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ’آن لائن‘ ادائیگیاں کرتے ہیں تو اِس پر زیادہ بحث نہیں ہوئی اور اِس معاملے کو یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا گیا کہ اِس بارے میں سٹیٹ بینک 13 نومبر تک رپورٹ جمع کرے گی اور پھر 13نومبر کو سٹیٹ بینک نے بھارت کے ٹیلی ویژن چینلز کو ہر قسم کی ’آن لائن ادائیگیوں‘ پر باقاعدہ پابندی کا اعلان کردیا جس کے بعد قومی بینکوں (قانونی ذرائع) سے بھارت کو ترسیلات زر نہیں ہو سکیں گی لیکن کیا بیرون ملک سرمائے کی منتقلی کے دیگر تمام راستے بھی بند کرنا ممکن ہے؟ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اگر ’15 اکتوبر 2016ئ‘ سے بھارتی ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات بذریعہ خلائی سیارے (ڈائریکٹ ٹو ہوم DTH) دیکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اِس پابندی کی خلاف ورزی (نشریات دیکھنے اور نشریات دیکھنے کے آلات کی فروخت) کرنے والوں (مجرموں) کو 4 سال تک کی قید اور 1 کروڑ روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے تو پھر 4 سال سے عائد پابندی کے باوجود پاکستان میں بھارت کے ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات کیسے دیکھی جا رہی ہیں اور (کیا یہ حقیقت اپنی جگہ حیرت انگیز نہیں کہ) بھارتی ’ڈی ٹی ایچ‘ نشریات کو دیکھنے والے پابندی کے باوجود بھی ’آن لائن ادائیگیاں‘ کس طرح کر رہے ہیں! بھارت نے نومبر 2000ءمیں خلائی سیارے سے ٹیلی ویژن نشریات شروع کرنے کی حکمت عملی متعارف کروائی تھی جس کے بعد بھارت کی پہلی ’ڈی ٹی ایچ‘ کمپنی نے ’2 اکتوبر 2003ئ‘ سے اپنی نشریات شروع کیں اور فی الوقت بھارت میں پانچ ’ڈی ٹی ایچ‘ چینل (ادارے) قائم ہیں‘ جن میں سے 4 نجی ’ڈی ٹی ایچ‘ کمپنیوں (ٹاٹا سکائی‘ ڈش ٹی وی‘ ائرٹیل اور سن ڈائریکٹ) کے چینل قیمت ادا کر کے جبکہ ایک حکومتی کمپنی (ڈی ڈی فری ڈش) کے چینل بلاقیمت دیکھے جا سکتے ہیں اور پاکستان میں بھی اِن پانچوں ڈی ٹی ایچ چینلوں کی نشریات قیمتاً یا مفت باآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ ’ڈی ٹی ایچ نشریات‘ کو حاصل کرنے کے آلات پاکستان کے طول و عرض میں برائے فروخت عام دستیاب ہیں‘ جبکہ اِنہیں آن لائن (دراز‘ علی بابا‘ شاپنگ پی کے وغیرہ کی وساطت سے) بھی خریدا جا سکتا ہے جبکہ چین یا امریکہ اور یورپ سے بھی ’ڈی ٹی ایچ‘ آلات درآمد کرنے پر پابندی نہیں ہے! ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں صرف بھارتی ہی نہیں بلکہ جنوبی افریقہ کے ’ڈی ٹی ایچ‘ کی نشریات بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور بھارتی ’ڈی ٹی ایچ‘ کے علاوہ امریکہ اور یورپ کی کئی نشریاتی کمپنیاں (بشمول سونی‘ ڈزنی اور نیٹ فلیکس وغیرہ) آئی پی ٹی وی (IPTV) کے نام سے نشریاتی مواد فروخت کرتی ہیں اور پاکستان کے صارفین خلائی سیارے کے علاوہ اِنٹرنیٹ کے ذریعے بھی ’تفریحی ٹیلی ویژن چینلز‘ کی نشریات خریدتے ہیں اور یوں ہرسال کروڑوں ڈالر (اربوں پاکستانی روپے) بھارت‘ یورپی ممالک اور امریکہ منتقل ہو رہے ہیں پاکستان میں بھارتی ڈی ٹی ایچ نشریاتی آلات کی مانگ (طلب) اور اُنہیں دیکھنے کی بھاری قیمت کہیں مجبوراً تو کہیں نشریات کے بہتر معیار کے لئے ادا کی جاتی ہیں جس پر باضابطہ پابندی 13 نومبر 2020ءسے عائد کر دی گئی ہے لیکن اِس کے بعد بھی قانون شکنی جاری رہے گی اور اِس سے ڈی ٹی ایچ صارفین کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہو گی جنہیں معیار اور بہتر نشریاتی مواد کا چسکا پڑ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی ٹی ڈی ایچ چینلوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا جس کے لئے متبادل ذرائع سے ادائیگیاں کرنے کے دیگر کئی ایک طریقے موجود ہیں‘ جن میں بذریعہ متحدہ عرب امارات ادائیگیاں ہوتی رہیں گی جو بھارت کے ڈی ٹی ایچ کاروبار (خریدوفروخت) کا مرکزی شہر ہے۔اصل ضرورت یہ ہے کہ بلاتاخیر پاکستان کے اپنے ’ڈی ٹی ایچ‘ کا آغاز کیا جائے اور اِس سلسلے میں ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کے افرادی و تکنیکی وسائل موجود ہیں جبکہ حکومت کے زیرغور نجی اداروں کی جانب سے پیشکشیں موجود ہیں جن میں ’شہزاد سکائی پرائیویٹ لمٹیڈ‘ نامی کمپنی نے لائسنس فیس کی 50فیصد ادائیگی بھی سال بھر پہلے کر رکھی ہے اور باقی ماندہ رقم 10 سال میں قسط وار ادا کرنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن تاحال اُسے اجازت نامہ حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ مذکورہ نجی کمپنی کی جانب سے ’20 فیصد ایڈوانس ٹیکس‘ کو عدالت میں چینلج کیا گیا ہے اور یوں یہ پورا معاملہ فیصلہ سازی کے مختلف مراحل اور عدالتی کاروائیوں کی نذر دکھائی دیتا ہے اندازہ ہے کہ پاکستان میں 50 لاکھ صارفین بھارت اور دیگر ممالک کی ’ڈی ٹی ایچ‘ دیکھتے ہیں‘ فیصلہ سازوں کو ’ڈی ٹی ایچ‘ کی ضرورت اور مانگ کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ پابندیوں پر پابندیاں عائد کرنے سے بھی اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔