صوبائی حکومت سے پھرجواب طلبی

 الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فوری طور پرضروری اقدامات کے لئے صوبائی حکومت کو مراسلہ جاری کرنے اور2017کی مردم شماری کے نتائج کا معاملہ دوبارہ وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس کو بتایاگیاکہ خیبر پختونخوا کے27 اضلاع میں حلقہ بندیاں مکمل کر لی گئی ہیں تا ہم صوبے میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع میں صوبائی حکومت کی جانب سے ویلج اور نیبر ہڈ کونسلوں کی تعداد کے نوٹیفکیشن نہ کرنے کی وجہ سے حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔سیکرٹری لوکل گورنمنٹ خیبر پختونحوا نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت نے کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے یہ کمیٹی الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اپنی سفارشات کابینہ کے سامنے 10 دسمبر سے پہلے رکھے گی۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے بتایاکہ 7 اضلاع کے حوالے سے انتخابی قوانین سے متعلق نوٹیفکیشن اسی ہفتے جاری کر دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں حکومت خیبر پختونخوا کو مراسلہ ارسال کرنے کا فیصلہ کیاہے تا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فوری ضروری اقدامات کرے اور انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے۔ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین، بائیو میٹرک ویری فیکیشن مشین اور آئی ووٹنگ کامستقبل کے انتخابات میں استعمال کے امکانات کا بھی جائزہ لیا گیاالیکشن کمیشن نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی سفارش پر کورونا کے پیش نظر قومی اسمبلی کے دو اورصوبائی اسمبلیوں کے چھ حلقوں میں ضمنی انتخابات موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی ادارے تحلیل ہوئے طویل عرصہ گذر گیا۔نچلی سطح پر منتخب اداروں کی غیر موجودگی میں عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ فنڈز کی دستیابی کے باوجود عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی التواءکا شکار ہیں۔گذشتہ نو مہینوں سے کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے سرکاری امور بھی تعطل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہیں ہوسکا۔ اس معاملے پر الیکشن کمیشن نے کئی بار صوبائی حکومت کو نوٹس بھی بھیجا ہے اور حلقہ بندیوں میں تاخیر پر برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان میں منتخب جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان کے استحکام میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ جس کی بنیادی وجہ اختیارات کی کھینچا تانی ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں غیر جماعتی اسمبلیوں کے ممبران کو حکومت نے ترقیاتی فنڈز اور ملازمتوں میں کوٹہ دینے کا جو فیصلہ کیا اس کی وجہ سے ملک کے انتظامی ڈھانچے میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈزعوامی فلاح و بہبود کی سکیموں کے بجائے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کئے جاتے رہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق نے نصف درجن سے زائد محکمے صوبوں کے حوالے کئے۔ مگر ان میں سے بیشتر کے اثاثے، اختیارات اور وسائل ابھی تک صوبوں کو منتقل نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے صوبائی حکومتیں بھی اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہیں۔وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے اس تنازعے میں براہ راست عوام متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں سینٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ قومی و صوبائی ایوانوں کےلئے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اپنی پوری توجہ قانون سازی پر دے سکیں۔مگر پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے اڑھائی سال گزرنے کے باوجود اس نے اپنے اس اہم انتخابی وعدے پر عمل نہیں کیا۔صرف خیبر پختونخوا میں ہی نہیں، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی اختیارات نچلی سطح پر تاحال منتقل نہیں کئے گئے اور وہاں بھی مقامی حکومتیں اب تک قائم نہیں ہوسکیں۔خیبر پختونخوا حکومت کے پاس قبائلی اضلاع کے انضمام کا جواز موجود ہے دیگر صوبوں کے پاس انتخابات نہ کرانے کا کوئی ٹھوس جواز بھی نہیں ہے۔ کورونا کی موجودہ صورتحال میں آئندہ چند مہینوں تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں تاہم توقع کی جاسکتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات رواں مالی سال کے اندر ہی کرائے جائیں گے تاکہ ملک کا جمہوری ڈھانچہ مکمل ہوسکے اور نچلی سطح پر عوام کے مقامی مسائل کے حل کی کوئی سبیل نکل سکے۔