امریکی محکمہ دفاع نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت افغانستان میں دو بڑے امریکی فوجی اڈے برقرار رہیں گے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا ءکا عمل جاری ہے اور 15 جنوری تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد دو ہزار 500 تک رہ جائے گی۔امریکی حکام نے فی الحال یہ نہیں بتایا کہ مستقبل میں امریکی فوج کا افغانستان میں مشن کیا ہو گا۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملے نے بروکنگ انسٹیٹوشن تھنک ٹینک میں پہلی مرتبہ فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دو بڑے امریکی فوجی اڈے قائم رکھنے کے علاوہ متعدد سیٹلائٹ مراکزبھی موجود رہیں گے۔امریکی فوج دو اہم مشن بھی جاری رکھے گی جس میں طالبان سے لڑائی میں افغان فوج کی مدد کرنا اور القاعدہ و داعش کے خلاف آپریشن شامل ہے۔یہ نہیں بتایاگیا کہ افغانستان میں کون سے دو فوجی اڈے باقی رہیں گے اس سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ نے بھی افغانستان سے فوجی انخلاءکے بعد وہاں پھر سے دہشت گردی فروغ پانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔نیٹو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو فوجی انخلاءکے بعد بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاسکتا۔قطرمیں امریکہ طالبان امن معاہدے کے بعد چالیس سالوں سے خانہ جنگی کا شکار افغانستان میں امن بحال ہونے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں لیکن انٹراافغان امن عمل میں ابھی کافی مشکلات اور رکاوٹیں حائل ہیں۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاءنہ کرنے کا فیصلہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی میں وہاں القاعدہ اور داعش کو قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اور افغانستان کی بحالی اور ترقی کے لئے بین الاقوامی برادری کاتعاون بھی جاری رہے گا۔ اس سے قبل سوویت فوج کے افغانستان سے انخلاءکے بعد امریکہ نے کابل کو بے یارومدد گار چھوڑ کر جو غلطی کی تھی اس کا نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر اتحادیوں کو بھی احساس ہے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا بیان بھی اس حقیقت کا اعتراف ہے۔ماضی میں بھی افغان وارلارڈز کے درمیان پاکستان اور سعودی عرب میں امن معاہدے ہوئے تھے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ افغانستان میں امریکی فوج کی محدود پیمانے پر موجودگی کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ امریکہ افغان متحارب گروپوں کے درمیان مفاہمت اور ایک متفقہ قومی حکومت کے قیام میں بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔ اڑھائی ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی اور دو فوجی اڈے اپنے پاس رکھنے کے امریکی فیصلے پر طالبان نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کو امریکہ کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہے۔ افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ دوروں اور طالبان قیادت سے مذاکرات کے دوران انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکی فوج کسی بڑے فوجی آپریشن میں حصہ نہیں لے گی افغانستان میں پائیدار امن کا قیام پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ جب سے افغانستان عالمی طاقتوں کے درمیان پنجہ آزمائی کا مرکز بن گیا ہے افغان سرزمین سے پاکستان کے اندردخل اندازی کا سلسلہ جاری ہے۔اگرچہ پاک فوج نے افغانستان کے ساتھ ملنے والی بیشتر سرحد پر باڑ لگادی ہے تاہم غیر معروف راستوں سے سمگلنگ اور دراندازی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔دو بڑی طاقتوں کی افغانستان میں فوجی مداخلت کی وجہ سے دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ افراد نقل مکانی اور پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے۔پاکستان نے تقریباً چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کی۔ اب بھی بیس لاکھ سے زائد مہاجرین پاکستان میں رہائش پذیر ہیں بارڈر سیکورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنا مسکن بنالیا اور ملک میں دہشت گردی کی لہر میں فوجی و پولیس افسروں، اہلکاروں اور سویلین سمیت اسی ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور کھربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔ افغانستان میں امن کی بحالی کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پاکستان کو ہی پہنچے گا۔ وسطی ایشیاءکے لئے افغانستان کے راستے کھل جانے کی صورت میں پاکستان خطے کا اہم ترین تجارتی حب بنے گا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک میں امن کے قیام کے لئے ہرممکن تعاون کو کوشش کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ افغان متحارب دھڑے خانہ جنگی کے نقصانات کا احساس کرتے ہوئے ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام پر متفق ہوں گے۔