خیبرپختونخواحکومت کے مسلسل رابطوں اور کوششوں کے بعد پن بجلی منافع کی ادائیگی ایک بارپھر ماہانہ بنیاد وں پر کرنے کی راہ ہموارہوگئی ہے خیبر پختونخوا کو اس مد میں مرکز سے پانچ ارب روپے مل گئے ہیں رواں ماہ مزید تین ارب روپے ملنے کاامکان ہے پن بجلی منافع کی مد میں صوبے کو جولائی‘اگست اورستمبر میں کوئی ادائیگی نہیں ہوسکی تاہم اکتوبر میں دو اور اب نومبر میں تین ارب روپے صوبہ کو دے دیئے گئے ہیں گزشتہ سال میں صوبائی حکومت کی کوششوں سے پہلی بار پن بجلی منافع کی ادئیگی سہ ماہی کے بجائے ماہانہ بنیادوں پر شروع کی گئی تھی تاہم یہ سلسلہ چند ماہ ہی چل سکا جس کے بعد اب وزیر اعلیٰ محمود خان ،سپیکر اسد قیصر ،وزیر خزانہ تیمورسلیم جھگڑا‘ وزیردفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر عمر ایوب کی کوششوں سے وفاقی حکومت ایک بارپھر ماہانہ بنیادوں پر ادائیگی کے لیے تیار ہوگئی ہے اوریقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ہرماہ تین ارب روپے اس مد میںدیئے جائیں گے وزیر خزانہ نے بتایاکہ بجلی منافع کے بقایاجات کی ماہانہ بنیادوں پر ادائیگی کاسلسلہ دوبارہ شروع ہونا ہماری کامیابی اور خوش آئند امرہے ہماری کوشش ہوگی کہ بتدریج ہرماہ ملنے والی رقم میں مزید اضافہ بھی ہوتا جائے ۔بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی آئین کے آرٹیکل 161(2) کے تحت وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم وفاق میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ صوبوں کو بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنے کےلئے 1986ءمیں صدر مملکت نے ڈپٹی سیکرٹری منصوبہ بندی اے جی این قاضی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ بھی کمیٹی میں شامل تھے۔ کمیٹی نے بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھانے اور ڈسٹری بیوشن کے اخراجات نکالنے کے بعد خالص منافع میں ان صوبوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے پیدا ہونے والی بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوتی ہے‘ اے جی این قاضی فارمولے کے تحت 1991-92ءمیں واپڈا نے ایڈہاک بنیادوں پر خیبر پختونخوا کو خالص منافع کی مد میں سالانہ چھ ارب روپے کی ادائیگی شروع کردی۔ 1991ءمیں مشترکہ مفادات کونسل اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اے جی این قاضی فارمولے کے تحت بجلی کے خالص منافع کی تقسیم کے فارمولے کی توثیق کردی۔ وفاقی حکومت نے صوبے کو یقین دہانی کرادی کہ واپڈا کی ممکنہ نجکاری کے بعد بھی بجلی کے خالص منافع کی صوبے کو فراہمی میں کوئی خلل نہیں ہوگا۔ بعد ازاں صوبے کو ملنے والا خالص منافع چھ ارب روپے سالانہ پر کیپ کردیا گیا۔ 2005ءمیں اس وقت کے صوبائی وزیرخزانہ سراج الحق نے بجلی کے خالص منافع کا معاملہ مصالحتی ٹریبونل میں اٹھایا۔ ٹریبونل نے 1991ءسے 2005ءتک کے عرصے کےلئے بجلی منافع کے 110ارب روپے کے بقایاجات خیبر پختونخوا کو ادا کرنے کا حکم دیا۔ تاہم صوبے کو ملنے والے واجبات کی ادائیگی میں تعطل جاری رہا 2015ءمیں صوبائی حکومت نے نیپرا میں ٹیرف پٹیشن دائر کر دیا۔ نیپرا نے پٹیشن پر فیصلہ فروری2016ءمیں سنادیا اور بقایاجات کی مد میں 70ارب روپے صوبے کو تین ماہ کے دوران ادا کرنے کا حکم دیا۔ نیپرا نے خالص منافع کی مد میں سالانہ چھ ارب روپے کی ادائیگی کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیدیا اور صوبے کو سالانہ 18ارب روپے کی ادائیگی کا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد میں بھی تاخیر ہوئی تو خیبر پختونخوا نے یہ معاملہ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے سامنے اٹھادیا۔ رابطہ کمیٹی نے واپڈا اور وفاقی حکومت کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں 2017ءمیں128ارب، 2018ءمیں 136ارب اور 2019ءمیں 142ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا۔ صوبائی حکومت کئی بارتمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل جرگے کو لے کر بھی وفاق کے پاس گئی تاہم بات یقین دہانی سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ صوبے کو اب ماہانہ بنیادوں پر بقایاجات کی ادائیگی پر واپڈا اور وفاقی حکومت کو آمادہ کرناصوبائی حکومت کی بڑی کامیابی ہے ‘توقع ہے کہ ماضی کی طرح یہ عمل کسی بھی وجہ سے دوبارہ تعطل کا شکار نہیں ہوگا۔