بارباریہ کہاجاتارہاہے کہ پنشن کی ادائیگی پربجٹ کابہت بڑا حصہ خرچ ہونے سے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز مختص کرنابتدریج خطرے میں پڑتاجارہاہے اس تناظر میں وفاقی حکومت نے آئندہ نئے بھرتی کئے جانے والے ملازمین کے لئے پنشن و دیگر مراعات کا موجودہ نظام ختم کرکے نیا کنٹری بیوٹری سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خبروں کے مطابق پے اینڈ پنشن کمیشن سے سفارشات طلب کرلی گئی ہیں جو آئندہ وفاقی بجٹ سے قبل اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ تیار کرکے وزارت خزانہ کو پیش کرے گا اور توقع ہے کہ نئے بجٹ میں نئے ملازمین کے لئے پنشن کا نیا نظام متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت پنشن فنڈ قائم ہونگے اور ملازمین کی تنخواہوں سے کی جانے والی کٹوتی اس فنڈ میں جمع ہوگی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی کی گئی رقم کو انوسٹمنٹ کرکے زیادہ منافع بخش اداروں میں سرمایہ کاری کی حکمت عملی بھی وزارت خزانہ طے کرے گا ہر سال سرمایہ کاری سے حاصل منافع بھی پنشن فنڈ میں جمع کیا جائے گا اور ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمین کو اس مجموعی منافع سے ادائیگی کی جائے گی۔نئے سرکاری ملازمین کےلئے نیا کنٹری بیوٹر سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ انتہائی مستحسن ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال اربوں روپے ریٹائرڈ ملازمین کےلئے مختص کرتی ہیں جبکہ پاکستان اس وقت انتہائی مشکل مالی حالات میں ہے ملکی وغیر ملکی قرضوں کے گرداب میں پھنسا ہے یہاں تک کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کےلئے بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس فیصلہ سے اختلاف کی گنجائش نہیں ، البتہ اس سلسلہ میں وزیر اعظم کو وزارت خزانہ سمیت دیگر مالیاتی ماہرین سے بھی مشاورت کرنی چاہئے مناسب یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت اپوزیشن سے بھی صلاح مشورہ کرے اور ان کی طرف سے مثبت تجاویز کا خیر مقدم کرے ۔ حکمت عملی ایسی ہو کہ نئے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد اتنا منافع ملے جس پر ان کا باقاعدہ گزارہ ہوسکے کیونکہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والوں کا آخری مالی سہارا پنشن ہے ہمارے نزدیک وفاقی حکومت کا نئے بجٹ میں نئے سرکاری ملازمین کےلئے پنشن کا نیا نظام متعارف کرانے سے آئندہ وقتوں میں ملکی معیشت پر بوجھ نہیں پڑیگا۔ اس مقصد کےلئے پنشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائےگا اور نئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کی جانےوالی کٹوتی اس فنڈ میں جمع ہوگی اور کٹوتی کی یہ رقم زیادہ سے زیادہ منافع بخش اداروں میں کی جائےگی۔ یہ فریضہ وزارت خزانہ کے سپرد ہوگا۔ اس کا ایک احسن پہلو یہ ہے کہ ہر سال سرمایہ کاروں سے حاصل منافع سے زیادہ منافع بخش اداروں میں سرمایہ کاری کی حکمت عملی وزارت خزانہ کرے گا، گویا اس حکمت عملی کے تحت ہر سال یہ دیکھا جائے گا کہ اس سال کٹوتی کی اس رقم سے کتنا منافع حاصل ہوا۔ تسلی کے بعد حکومت اس سلسلہ کو جاری رکھ سکتی ہے اور اگر کٹوتی کی رقم پر حاصل شدہ منافع کم ہو تو اس کے لئے دیگر زیادہ منافع بخش اداروں سے رجوع کیا جائے گا مناسب یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت اس حوالہ سے دیگر ترقیاتی ممالک اور ان کے ماہرین سے مشاورت کرے تاکہ نیا کنٹری بیوٹری پنشن سسٹم کے متعارف ہونے سے نہ وفاقی حکومت پر کوئی اعتراض آسکے اور نہ ہی نئے سرکاری ملازمین کا مالی نقصان ہو، تاہم اس نئے نظام کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت موجودہ پینشنرز کو پنشنوں میں بھی موجودہ ہو شرباءمہنگائی کے تناظر میں خاطر خواہ اضافہ کرے پینشنرز حضرات عمر کے ایسے حصہ میں ہیں کہ جہاں وہ دیگر کام کرنے کے قابل نہیں اور موجودہ پنشن میں ان کا اور اہل خانہ کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے ۔نیز تعمیر پاکستان میں ان کا بے حد اہم کردار ہے، اس لئے حکومت ان کی مشکلات کا احساس کرے اور ان کی پریشانیاں کم کرے۔ستم بالائے ستم یہ کہ قومی بجٹ میں نہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور نہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا گیا جس سے ان کی مالی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لئے آئندہ قومی بجٹ میں ان کے لئے خاطر خواہ فنڈ رکھا جائے کہ ان کی موجودہ مالی مشکلات میں کمی آسکے ۔ چونکہ نیا کنٹری بیوٹر نظام حکومت کا ایک نیا تجربہ ہوگا اس تجربہ کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت کو بے حد احتیاط سے کام لینا ہوگا دنیا کے کئی ممالک میں پنشن کا رواج نہیں ان ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے خود ہمارے ملک میں کئی ایسے اقتصادی اور معاشی ماہرین ہیں کہ حکومت ان کی تجاویز پر عمل کرکے اس نئے نظام کی کامیابی کو ممکن بنایا جاسکتی ہے ، اس ضمن میں وزارت خزانہ، وزارت منصوبہ بندی، آڈیٹر جنرل پاکستان سے مل کر ایک کمیٹی اگر تشکیل دی جائے اور ان کا ایک وفد بنا کر ترقی یافتہ ممالک کے وزراءخزانہ اور دیگر مالیاتی مشیروں سے صلاح ومشورہ کر کے بھیجا جائے تو اس سے وفاقی حکومت کے اس نظام کی کامیابی کی راہیں کھل سکتی ہیں ۔