پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے احتجاج کی پہلی لہر کے آخری معرکے (13دسمبر) کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہے۔ جس کے بعد احتجاج کی دوسری لہر کے مراحل طے کئے جائیں گے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ”جمہوریت کے نام پر جمہوری عمل (عام انتخابات) کے ذریعے منتخب ہونے والی حکمراں جماعت (تحریک انصاف) کو اقتدار کی آئینی مدت مکمل کرنے نہ دی جائے۔“ معلوم ہوا ہے کہ ڈیموکرٹیک موومنٹ ڈیموکریسی ہی کی ضد ہے! اِس ”مبینہ جمہوری جدوجہد‘ ‘میں حزب اِختلاف پارلیمان کے اَندر نہیں بلکہ پارلیمان کے باہر اپنے تحفظات کا اَزالہ چاہتی ہے ۔ حزب اختلاف کی جاری احتجاجی تحریک کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ گیارہ جماعتی اتحاد کی تحریک ”نواز لیگ‘ ‘ہے جس کے لئے یہ احتجاج ’زندگی اور موت‘ جیسی کلیدی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کامیابی کی صورت ”نئی زندگی“ اور ناکامی کی صورت ”خسارہ ہی خسارہ“ یقینی نظر آ رہا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ نواز لیگ کی پاکستان میں موجود وہ تمام نیک نامی‘ سیاسی و مالی جاگیر اور اثرورسوخ داو¿ پر لگا ہوا ہے‘ جسے ”بنانے‘ بچانے اور چھپانے“ میں تین نسلوں کی کارگزاری چالیس سالہ جدوجہد شامل ہے‘ اگرچہ نواز لیگ نے دیگر دس جماعتوں کو قائل کر رکھا ہے لیکن اصل نظریہ ’نواز لیگ‘ ہی کا ہے‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جن قومی مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے‘ اُس کے لئے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جاتا کہ آخر وہ کون ہے جس نے پاکستان کو اِس مقام تک پہنچایا کہ آج قرض لئے بغیر ملک و معیشت نہیں چل سکتے! ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں اور عام آدمی (ہم عوام) میں ٹیکس ادا کرنے کی سکت نہیں رہی۔ کیا ’پی ڈی ایم‘ میں شامل تینوں بڑی جماعتیں نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) درپیش قومی مسائل (بحرانوں) کا حل ہیں؟ پاکستان میں طرز سیاست اور بنام جمہوریت طرز حکمرانی اپنی تعریف اور ساخت میں ادھوری ہے! اگر ایسا نہ ہوتا تو جولائی 2018ءسے تحریک انصاف کو پاکستان پر حکمرانی کرنے کا جو عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا ہے اُسے تسلیم کر کے ”ووٹ کو عزت“ دی جاتی لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں‘ جس میں حکومت کی توجہ اور قومی وسائل اصلاحات پر نہیں بلکہ کورونا وبا سے نمٹنے پر خرچ ہوتے رہیں۔ درس و تدریسی اور کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔ کارخانے بند رہنے سے برآمدات نہ ہوں اور صنعتیں و زرعی شعبہ تحقیق و ترقی سے مربوط نہ ہو جس کے باعث درآمدات و غیرملکی قرضوں پر انحصار برقرار رہے۔حزب اختلاف کی جماعتیں ’تیرہ دسمبر‘ کے روز یادگار پاکستان (لاہور) کے مقام پر ’عوامی حمایت ‘ کا یادگار مظاہرہ کریں گی اور اطلاعات کے مطابق نواز شریف (والد) اور شہباز شریف (چچا) نے سیاسی وارث کے لئے مریم نواز کو نامزد کر دیا ہے‘ جنہیں مذکورہ جلسہ¿ عام کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی ہدایات کے ساتھ جلسوں کی کامیابی کے گُر بھی بتا دیئے گئے ہیں اور درحقیقت اِسی جلسے کی کامیابی یا ناکامی پر مریم نواز کے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی ہے جبکہ حزب اقتدار جلسے کی ظاہری تیاریوں اور پس پردہ ہونے والے انتظامات پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ توقع ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے تیرہ دسمبر کے جلسہ¿ عام پر اَثرانداز ہونے کے لئے حکومتی اختیارات اور طاقت کا بیجا استعمال نہیں کیا جائے گا جیسا کہ آخری مرتبہ ملتان میں ناکام کوشش کی گئی اور حزب اختلاف کو غیرضروری اہمیت میسر آیا‘ ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے کہ یہاں مختلف اَدوار میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے اور المیہ یہ ہے کہ عوام سے وعدے پورے نہ کرنے والے ایک مرتبہ پھر خود کو اقتدار کے لئے اہل سمجھ رہے ہیں! کوئی نہیں پوچھ رہا کہ آخر یہ کس قسم کی سیاست اور طرزحکمرانی ہے کہ جس میں حکمراں جماعت کی کارکردگی کوئی معیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں ایسا کوئی بھی پیمانہ متعارف نہیں کروانا چاہتیں جس سے اُن کی مراعات اور حکمرانی پر خودساختہ حق کا بھانڈا پھوٹ جائے۔ جمہوریت کے نام پر اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرزکو حاصل مراعات‘ اختیارات نظرثانی چاہتے ہیں۔ بنام جمہوریت اُس آزادی پر بھی نظرثانی ہونی چاہئے جس کے تحت کورونا وبا جیسے پرخطر حالات میں بھی احتجاجی سیاست کی جا رہی ہے۔ معاشی استحکام نہیں اور کوئی ایک بھی اِیسا شعبہ¿ زندگی نہیں‘ جو سکون و اِطمینان کے ساتھ رواں دواں ہو۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت عام آدمی (ہم عوام) ہر ضروریات زندگی پر ٹیکس ادا کر رہا ہے جس کے باوجود بھی حکومت پینے کا صاف پانی تک فراہم نہیں کر رہی اور ملک پر مسلط سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کی اسیر چاہتی ہے کہ اِسے ہر قانون سے استثنیٰ حاصل ہو۔پارلیمانی اکائیوں کے درمیان بات چیت نہیں ہو رہی اور اِس صورتحال میں اگر حزب اختلاف کے اراکین بڑی تعداد میں ’بنام جمہوریت‘ مستعفی ہو جاتے ہیں تو اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ’بنام جمہوریت‘ ہی آئندہ عام انتخابات کے نتائج بھی تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یکساں قابل قبول ہوں گے؟ اِس سلسلے میں افغانستان کی ایک مثال موجود ہے‘ جہاں انتخابات میں کامیاب اور ناکام ہونے والی دونوں جماعتوں کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا۔ اگر جمہوریت کے بغیر پاکستان کے مسائل کا کوئی حل قابل عمل نہیں سمجھا جا رہا اور اِس بارے میں قومی سطح پر بحث و مباحثے کو بھی ضروری نہیں سمجھا جا رہا تو پھر ’بنام جمہوریت‘ آئین میں ترمیم کر کے سیاسی جماعتوں کو قائدین‘ اُن کے اہل خانہ اور منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں و سینیٹرز کے لئے آئینی استثنیٰ منظور کر دینا چاہئے کہ چاہے اِن اندرون و بیرون ملک اثاثے معلوم آمدن سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں لیکن اِن پر کسی بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا اور ملک میں سزا¿ و جزا¿ صرف عام آدمی (ہم عوام) کے لئے ہوگی‘ جسے آئین اور لغت میں ’جمہور (طاقت کا سرچشمہ)‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔