مفت علاج کا فلیگ شپ منصوبہ

وزیر اعلی محمود خان نے صوبے کے عوام کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات کی ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کو اپنی حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت اس مقصد کے حصول کےلئے نہ صرف پر عزم ہے بلکہ سنجیدہ اقدامات بھی کر رہی ہے۔ صحت انصاف کارڈ سکیم کو اس حوالے سے صوبائی حکومت کا ایک فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سکیم کی صوبے کی سو فیصد آبادی تک توسیع سے یہاں کے عوام کو علاج معالجے کی مفت سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا خواب پورا ہو جائے گا۔ صحت انصاف کارڈ اسکیم کو ایک غریب پرور منصوبہ اور سماجی تحفظ کا ایک جامع پیکیج قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع کی سو فیصد آبادی تک اس سکیم کو توسیع دی گئی اور اگلے مرحلوں میں صوبے کے وسطی اور جنوبی اضلاع کی سو فیصد آبادی تک یہ سہولت پہنچائی جائے گی رواں مہینے کے آخر تک توسیع کا سارا عمل مکمل کر لیا جائے گا جس سے صوبے کی تمام آبادی کو علاج معالجے کی مفت اور معیاری سہولیات ان کی دہلیز پر فراہم ہونگیں اور اس طرح خیبر پختونخوا اپنی تمام آبادی کو علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کرنے والا ملک کا پہلا صوبہ بن جائے گا۔صحت انصاف کارڈ سے ہر خاندان کو سالانہ دس لاکھ روپے تک علاج معالجے کی سہولت حاصل ہوگی تاہم یہ سہولت صرف ہسپتال میں داخل مریضوں کو میسر ہوگی معمول کے میڈیکل چیک اپ اور او پی ڈی کے مریضوں کا صحت کارڈ سے علاج نہیں ہوگا۔زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی کمرتوڑ مہنگائی سے محفوظ نہیں رہا۔ دوائیاں روزبروز مہنگی ہورہی ہیں عام مریض ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں اپنا چیک اپ، ضروری ٹیسٹ کرواتا اور ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں لیتا ہے تو ایک چیک اپ پر پانچ سے دس ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں جو ایک غریب خاندان کی استطاعت سے باہر ہےں۔ تپ دق، سرطان، امراض قلب، زیابیطس اور گردوں کے امراض کا علاج کرواناعام آدمی کے لئے سوہان روح ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کی طرف سے ہسپتال میں داخل مریضوں کے ضروری ٹیسٹ کروانے، انجیو گرامی، انجیو پلاسٹی ، اورپیچیدہ آپریشنزکے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کرنا ایک غیر معمولی ریلیف ہے۔ جسے بلاشبہ موجودہ حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔صحت انصاف کارڈ پر علاج معالجے کی سہولت صوبے کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں اور نجی صحت مراکز پر موجود ہوگی۔صوبے کی چار کروڑ آبادی کے لئے صحت کارڈ بنانا سردست ممکن نہیں کیونکہ حکومت نے رواں ماہ کے آخر تک صوبے کی پوری آبادی تک یہ سہولت پہنچانے کا اعلان کرچکی ہے حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ کو ہی صحت کارڈ کے طور پر استعمال کیاجاسکتا ہے۔ عوامی بہبود کے اس اہم منصوبے سے ناجائز فائدہ اٹھائے جانے کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور حکومت نے اس کے لئے منصوبہ بندی کی ہوگی ۔ جن اداروں میں ملازمین کو میڈیکل کی سہولت میسر ہے وہاں جعلی میڈیکل بلوں کے ذریعے کروڑوں کی وصولیاں کی جاتی ہے۔صحت انصاف کارڈ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے تمام ممکنہ راستے بند کرنا اور اس پروگرام کی کڑی مانیٹرنگ ضروری ہے تاکہ عوامی فلاح و بہبود کے اس منصوبے کو لوٹ مار اور کرپشن کی نذر ہونے سے بچایا جاسکے۔ صحت انصاف کارڈ سے مفت علاج کی سہولت ضم ہونے والے اضلاع میں ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ساتوں قبائلی اضلاع کے عوام اپنے گھروں کے قریب علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہیںمفت علاج کی یہ سہولت ضم اضلاع کی ایک کروڑ کی آبادی کے لئے ایک بڑا ریلیف ہوگا۔