پشاور کے دوسرے بڑے تدریسی مرکز خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر بروقت نہ پہنچنے کے باعث دو بچوں سمیت کورونا وائرس کے 8 مریض جاں بحق ہو گئے۔ہسپتال انتظامیہ کے مطابق آکسیجن کی فراہمی میں تعطل کے باعث مریض دم توڑ گئے۔سلنڈر بر وقت نہ پہنچنے سے دیگر وارڈز کے مریض بھی متاثر ہوئے۔ ہسپتال ترجمان کا موقف ہے کہ ہسپتال کو راولپنڈی سے آکسیجن سلنڈر فراہم کئے جاتے ہیں، سردی کے سبب مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت زیادہ رہتی ہے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ آکسیجن سلنڈر پہنچنے میں تاخیر کی وجہ معلوم کی جارہی ہے۔ وزےر اعلیٰ محمود خان نے واقعے کا نو ٹس لےتے ہوئے فوری انکوائری کی ہداےت کی ہے۔ واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک کی جائے گی تمام معاملات عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری اور وزیر صحت کو ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز سے واقعے کی تحقیقات کروانے کی ہدایت کی ہے اور واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کا حکم دیا ہے محمود خان کا کہنا ہے آٹھ قیمتی جانوں کا ضیاع متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے سنگین غفلت اورغیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے۔ صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں گی عوام سے کچھ نہیں چھپائیں گے،تحقیقات کے دوران واقعے کی تہہ تک جائیں گے ۔خیبر پختونخوا حکومت عوام کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہے۔جس صوبے میں صحت عامہ حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہو۔ وہاں ہسپتال انتظامیہ کی غیر ذمہ داری سے آٹھ قیمتی جانوں کا ضیاع ایک بڑا واقعہ ہے۔کورونا کی دوسری لہرکی وجہ سے صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے۔یہاں کورونا کے پھیلاﺅ کی شرح بھی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔عالمی وباءکی دوسری لہر آنے کے بعد ایل آر ایچ، کے ٹی ایچ اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا کے وارڈز دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں یہاں روزانہ کورونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد بھی پانچ سو سے تجاوز کرگئی ہے ایسی ہنگامی صورت حال میں مریضوں کو تمام ممکن سہولیات کی فراہمی صحت مراکز کے ارباب اختیار کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔کورونا ویکسین ابھی تک مارکیٹ میں نہیں آئی،اسلئے احتیاطی تدابیر،فیس ماسک پہننے‘سماجی فاصلے پر عمل درآمد اور مریض کو آکسیجن لگاکر ہی وباءکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس عالمی وباءسے مریض کے پھیپھڑے فوری متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کو وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے جہاں ان کے پھیپھڑوں کو مصنوعی طریقے سے آکسیجن پہنچائی جاتی ہے کورونا وباءکے دوران ہسپتالوں میں آکسیجن سلینڈرز کامناسب سٹاک ہونا ضروری ہے۔اور یہ ہسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔البتہ جان بچانے والی ادویات، آپریشن کے ضروری آلات اور آکیسجن جیسی بنیادی ضرورت کی چیز خریدنے کےلئے حکومت فنڈز فراہم نہ کرے تو یہ حکومت کی کوتاہی ہوگی۔تمام وسائل دستیاب ہونے کے باوجود آکسیجن جیسی اہم چیز کی نایابی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ کے ٹی ایچ واقعے کی بھی سرسری تحقیقات ہوںگی اس میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے چند ملازمین کو تختہ مشق بنایاجائے گا اور انہیں معطل یا برطرف کیا جائے گا اور واقعے کی فائل بند ہوجائے گی۔ اس ملک میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔کیونکہ یہاں غریب آدمی کی جان زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔آکسیجن نہ ملنے سے جاں بحق ہونے والوں میں کوئی سیاست دان یا اعلیٰ سرکاری افسر شامل ہوتا توواقعے کے تمام ذمہ دار چند گھنٹوں کے اندرپکڑے بھی جاتے اور انہیں قرار واقعی سزا بھی مل جاتی۔کے ٹی ایچ کا واقعہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کےلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ جن لوگوں کو عوام کی جان بچانے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے سرکاری خزانے سے بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے ان کی غفلت اور لاپرواہی سے اگر ایک انسانی جان چلی جاتی ہے تو یہ اس ادارے اور حکومت کےلئے بھی بدنامی کا باعث ہے یہاں تو دو بچوں سمیت آٹھ افراد کی زندگی کا سوال ہے ۔توقع کی جاسکتی ہے کہ حکومت اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دلائے گی اور سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائے گی تاکہ کے ٹی ایچ جیسے سانحات کے دوبارہ رونما ہونے کے خدشات کا سد باب کیاجاسکے۔