انسان کی اپنی ایجادات مد مقابل

کمپیوٹروں پر منحصر کام کاج کو اردو زبان کے محاورے میں ’مکھی پر مکھی مارنے‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ مشینیں کسی ایک کام کو بار بار اور ایک ہی جیسا سرانجام دیتی ہیں اور اِن میں سوچنے سمجھنے یا اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ عمومی کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور خصوصی کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں یہی بنیادی (نمایاں) فرق ہے کہ پہلی قسم کے کمپیوٹروں کا اپنا دماغ نہیں ہوتا اور دوسری قسم کے کمپیوٹروں کو مختلف قسم کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے اور وہ تبدیل شدہ حالات کے مطابق فوری فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اِس فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ کہا جاتا ہے جس کا استعمال گاڑیوں کے ازخود (بنا ڈرائیور) چلنے سے لیکر ہوائی جہازوں کی اڑان اور اب دفاعی ٹیکنالوجی میں ہونے لگا ہے۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ کمپیوٹروں سے ’بنا اُجرت‘ قتل کروائے جا رہے ہیں اور انسانی تاریخ میں ایسا پہلا قتل ’جمہوری اسلامی ایران‘ کے جوہری پروگرام کے خالق محسن فخرزادے کا ہوا ہے‘ جنہیں خلائی سیارے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسے خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا جنہیں میلوں دور بیٹھ کر کنٹرول کیا گیا‘ایران کی قومی سلامتی کے سربراہ علی شامخانی نے کہا تھا کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انہوں نے حملے میں ’الیکٹرانک آلات استعمال‘ کئے۔ ایران نے مذکورہ حملے کا الزام اسرائیل اور ایران سے باہر بیٹھے ایک گروپ پر عائد کیا ہے جبکہ اسرائیل نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اُس نے الزامات کی تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ فخری زادہ کے چہرے کو فوکس کر کے مشین گن اس طرح تانی گئی تھی کہ اس حملے میں ان کی اہلیہ نہ ماری جائیں اس کے باوجود کے وہ صرف اپنے خاوند سے بمشکل ایک فٹ (پچیس سینٹی میٹرز) دوری پر تھیں۔ ان کے مطابق اس حملے میں کوئی انسانی حملہ آور ملوث نہیں تھا بلکہ تمام تیرہ گولیاں گاڑی میں نصب ہتھیار سے فائر کی گئیں‘ قبل ازیں جنگ کے دوران مصنوعی ذہانت والے ہتھیاروں کا استعمال نے کئی سائنسدانوں کو پریشانی کئے رکھا۔ یورپی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی متعدد رپورٹوں میں بھی اِس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بالخصوص 2015ءکا حوالہ دیا جاتا ہے جب پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ ان بھی ایک ہزار سائنسدانوں میں شامل تھے جنہوں نے جنگی و دفاعی مقاصد (ہتھیاروں) کے لئے کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت کے استعمال پر عالمی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور عالمی طاقتوں و اقوام متحدہ کے نام کھلے خط پر دستخط کئے تھے۔ لائق توجہ ہے کہ اگر ایران کے دعوے کو درست تسلیم کر لیا جائے‘ جس کے شواہد پیش نہیں کئے گئے اور یقین کر لیا جائے کہ اُس کے جوہری سائنسدان کو مصنوعی ذہانت والے ایسے خودکار ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا ہے جو چہرے کی شناخت کر سکتا ہے اور اِس شناخت کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو جان سے مار سکتا ہے تو پھر یہ عالمی سیکورٹی کو تہہ و بالا (تباہ) کرنے کے لئے کافی ہے! یقینا فخری زادہ کے قتل کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا نہیں تھا بلکہ مقصد اِس امکان کو ختم کرنا تھا کہ امریکہ پھر سے ایران کے ساتھ دوہزارپندرہ والا معاہدہ بحال نہ کرے جس کے بارے میں خیال ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن‘ ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جوہری صلاحیت کے میدان میں کسی بھی ملک کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے اِس قسم کا انتہائی اقدام عالمی تعلقات اور سفارتکاری پر بھی بڑا سوال ہے اور اِس بات کی طلب محسوس ہو رہی ہے کہ دنیا کو مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ذہانت کی زیادہ ضرورت ہے۔ لمحہ¿ فکریہ یہ بھی ہے کہ کمپیوٹروں کے جذبات و احساسات نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ملنے کے بعد وہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر اِنسان اِسی مصنوعی ذہانت کا استعمال تعلیم و صحت‘ ماحولیات کی بہتری اور زرعی شعبوں میں کرے تو دنیا کو رہنے لائق زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہے جس کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کو ایک وسیع و عریض مقتل کی بجائے گل و گلزار بھی تو بنایا جا سکتا ہے! جہاں انسانوں کے شر سے انسان محفوظ ہوں اور جہاں مشینوں کی ایمانداری سے کل وقتی کام کرنے صلاحیت سے انسانی زندگی کے معیار کی بلندی اور سہولیات کی فراہمی کے لئے استفادہ ممکن ہے۔ علم نافع کی طلب اور جستجو کرنی چاہئے۔ کیا فائدہ ایسی دفاعی اور حملہ آور ہونے کی صلاحیت کا‘ جس میں اہداف کو چن چن کر اور ذہانت سے نشانہ بنانے کے لئے ہتھیار تو پائے جائیں لیکن انسانوں کی اپنی ایجادات کا مقابلہ انسان سے ہو رہا ہے!