کرپشن کی قبولیت کا جرم

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ناجائز طریقے سے دولت کمانے والوں،کرپشن اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو معاشرے میں عزت دینا ہماری بدقسمتی ہے۔پولیس یا قانون نافذکرنےوالے ادارے تنہا معاشرے میں موجود جرائم پیشہ گروہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔پورے معاشرے کو جرائم سے لڑنا اور جرائم پیشہ لوگوں سے سماجی مقاطعہ کرنا ہے۔ جس شرح سے منشیات پاکستان میں پھیل رہی ہیں اس کے قوم کے مستقبل پر منفی اثرات ہوں گے۔ جب تک معاشرہ کرپٹ لوگوں کو بُرانہیں سمجھتا صرف پولیس‘نیب یانظام انصاف کے ذریعے کرپشن نہیں رک سکتی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب ایک معاشرہ کسی برائی کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے تو اس برائی کا خاتمہ یقینی ہوتا ہے ۔سیاسی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود وزیراعظم کے موقف سے انحراف حقیقت سے روگردانی کے مترادف ہو گا کرپشن ہماری رگوں میں سرایت کرگئی ہے۔ ہر شخص اپنی حیثیت‘اوقات‘دائرہ اختیاراور استعداد کے مطابق کرپشن کرتا ہے اس کی زندگی کا واحد مقصد کم سے کم وقت میں بغیر جدوجہد کے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہوتا ہے ۔ناجائز ذرائع سے جن کے پاس دولت آتی ہے وہ عالی شان بنگلے بناتے ہیں قیمتی گاڑیاں خریدتے ہیں اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھجواتے ہیں خود بھی میڈیکل چیک اپ کےلئے امریکہ اور برطانیہ جاتے ہیں مال مفت دل بے رحم کے مصداق روپیہ پیسہ اپنی تشہیر کےلئے پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں پربھی ہرممکن طریقے سے دولت جمع کرنے کا بھوت سوار ہوتا ہے، کوئی قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے، کوئی لینڈ مافیا کا حصہ بن جاتا ہے کوئی ڈرگ مافیا کا آلہ کار بنتا ہے کوئی نقلی اشیاءتیار کرکے اصلی مال کے دام بیچ کر دولت کے انبار لگاتا ہے ۔کرپشن میں صرف وفاقی و صوبائی وزرائ، منتخب اراکین،اعلیٰ سرکاری افسران ہی ملوث نہیں، چائے میں چنے کے چھلکے اور مصالحوں میں لکڑے کے برادے ملانے والا بھی کرپٹ ہے، پورے دام وصول کرکے گاہک کو دھوکے سے دو نمبر چیز بیچنے والا بھی کرپٹ ہے۔منشیات بیچ کر قوم کی نسل برباد کرنے والا بھی کرپٹ ہے۔دھوکے سے بہن، بیٹی ، بھائی اور رشتہ دار کی زمین اور جائیداداپنے کام کرنے والا بھی بدعنوان ہے،اگر سرکاری افسر دفتر کی گاڑی اور فرنیچر اپنے گھر لے جاتا ہے ،ملازمین کو چھٹی دے کر تنخواہ اپنی جیب میں ڈالتا ہے قومی مفاد کے منصوبے کا فنڈ منافع کمانے کےلئے اپنے بینک اکاونٹ میں رکھتا ہے وہ تو کرپٹ ہے ہی۔ حاضری لگاکر دفتر سے غائب ہونے والا، جعلی بل بناکر ٹی اے ، ڈی اے اور میڈیکل کی رقم وصول کرنے والا کلرک بھی تو کرپٹ ہے۔معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کونہ صرف اپنے معاشرے میں قابل قبول قرار دیا ہے بلکہ ان کی آﺅ بھگت بھی کرتے ہیں انہیں سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں حالانکہ ہمیں بخوبی علم ہے کہ اس نے دولت ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہے اگر معاشرے میں اخلاقی جرات پیدا ہوجائے تو ہم ایسے عناصر کو عزت دینے کے بجائے ان کا سماجی مقاطعہ کریں، ان کی غمی خوشی میں شرکت نہ کریں اور نہ ہی انہیں اپنی خوشیوں میں شرکت کی اجازت دیں ، اگر معاشرہ کرپٹ، بدعنوان، چور، بدمعاش، رہزن ، بددیانت، خیانت کار اور بے ایمان لوگوں سے قطع تعلق کرلے تو کسی کو ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے اور اس کی نمائش کی جرات نہیں ہوگی۔اصلاح معاشرہ کی تحریک گھروں سے شروع ہونی چاہئے، اگر بیٹا یا بیٹی فراڈ، دھوکے اور کرپشن میں ملوث ہو۔ تو سب سے پہلے ماں باپ کو اس کا علم ہوتا ہے وہ اگر اس سماجی برائی کی حوصلہ شکنی کریں توبچوں کو دوبارہ کرپشن کرنےکی جرات نہیں ہوگی۔ حکومت ‘ احتساب کے اداروں اور عدالتوں پر کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری ڈال کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے‘ہر خاندان، محلے، قصبے اور شہرکے بڑوں کو کرپشن سے بیزاری کا عملی ثبوت دے کر اس کی بیخ کنی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔گرفتاریاں، پلی بارگینگ اور قید و جرمانے کی سزائیں دے کر کرپشن کے سماجی لعنت کا تدارک ممکن نہیں ہے ۔