حزبِ اِختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے اِتحاد ’پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ کی جانب سے قومی و صوبائی اِسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اَصولی فیصلہ اپنی جگہ لیکن اِس اصولی فیصلے کی حتمی تاریخ ’اِکتیس دسمبر‘ مقرر کرنا اِس بات کا ثبوت ہے کہ حزب اختلاف کے رویئے میں کہیں نہ کہیں لچک موجود ہے اور درپردہ طے پانے والے معاملات کی وجہ قائدین کے لہجوں کی تلخی بھی پہلے جیسی نہیں رہی اور الفاظ کا انتخاب بھی محتاط ہو چکا ہے۔ حکومت کی کارکردگی اور احتساب کے جاری عمل کے حوالے سے ’پی ڈی ایم‘ کے پاس اپنا سیاسی مو¿قف منوانے کے 2 طریقے ہیں۔ ایک پارلیمانی اور دوسرا غیرپارلیمانی اور لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ دونوں طریقے ’جمہوری‘ ہیں۔ وہ سبھی لوگ جو جمہوریت کو پاکستان کے لئے بہترین طرزِ حکمرانی قرار دیتے ہیں‘ اُنہیں سوچنا چاہئے کہ کس طرح عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمان میں بحث و مباحثے کے مقابلے سڑکوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے تو اِس میں خیر اور خوبی کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ (اسٹیئرنگ کمیٹی) اجلاس‘ میں کیا کچھ زیرغور آیا اُس کا عکس آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق اِن فیصلوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تیرہ دسمبر کے بعد پہیہ جام ہڑتال‘ اِحتجاجی جلسے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف کے ساتھ جمہوریت اور سیاسی استحکام کے لئے بات چیت کرنے کو تیار ہیں تو اِس قدر ہنگامہ کیوں ہے؟ حزب اختلاف کی خواہش تھی کہ احتساب کا عمل اُن کی خواہش کے مطابق ختم کر دیا جاتا اور سیاسی قیادت کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات اور اِن مقدمات میں ہوئی سزائیں ختم کر دی جاتیں لیکن تحریک انصاف کا مو¿قف ہے کہ احتساب کے مقدمات ماضی کی اُنہی حکومتوں نے بنائے ہیں‘ جو آج احتجاجی تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل ہیں۔ وزیراعظم کے اِس بیانیے کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے کہ ”پارلیمانی جمہوری نظام سے احتساب کو ختم کر دیا جائے تو قوم کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ کیا حزبِ اِختلاف کی جماعتیں اِحتساب کا ایک ایسا نظام چاہتی ہیں جس میں دونوں بڑی جماعتوں (نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) کی قیادت ہر قسم کے قوانین و قواعد بالخصوص اِحتساب سے بالاتر ہوں؟ اگر اِس سوال کا جواب پارلیمان تلاش نہیں کر سکتی اور پارلیمینٹ کو عملاً غیرفعال کر دیا گیا ہے تو ممکن ہے کہ اِس بارے میں ’ریفرنڈم‘ کروا لیا جائے اور جس عوام پر حکمرانی کی جاتی ہے اُسی سے پوچھ لیا جائے کہ کیا سیاست دان ملک کے آئین‘ عدالتوں اور احتساب سے بلند ہونے چاہیئں یا نہیں؟ مشکل یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں یہ بات تسلیم بھی نہیں کر رہیں کہ وہ آئین سے مستقل استثنیٰ چاہتی ہیں اور وہ عوام کو درپیش معاشی مشکلات کے پیچھے چھپ رہی ہیں!