ہمارے ملکِ پاکستان میں رائج جمہوری نظام کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوام جس جمہوری بس میں سوار ہیں وہ انہیں اپنی منزل کی مخالف سمت میں لے کر جارہی ہے۔ پاکستان میں دانشوروں اور سیاستدانوں کے ایک خاص حلقے میں یہ بات بڑی شد و مد کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ جمہوریت لولی لنگڑی ہی صحیح لیکن بہترین نظام ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے، جس طرح نیم حکیم کو خطرہِ جان کہا جاتا ہے اسی طرح نامکمل جمہوریت کو خطرہ حقیقی عوامی نظام کہنا غلط نہیں ہوگا۔ چلیںاسی تناظر میں مکمل اور نامکمل جمہوریت کا موازنہ کرنے کی گستاخی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے لفظِ گستاخی کیوں استعمال کیا؟، بھئی ظاہر ہے کہ پاکستان میں سیاستدان، سول سوسائٹی کے ممبران اور دانشوروں کا ایک خاص ٹولہ اگر کسی کو نامکمل جمہوریت کی خرابیوں پر بات کرتا دیکھے تو فوراً ہی اُس پر آمریت کا نمائندہ ہونے کا لیبل لگادیتا ہے، اب اس صورتحال میں پاکستان میں رائج جمہوری نظام کی خرابی کا تجزیہ کرنا گستاخی ہی گردانی جائے گی۔اس بات میں رتی برابر بھی کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ دورمیں جمہوریت سے بہترین نظامِ ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، جن ممالک میں جمہوری نظام اپنے مکمل قواعد و ضوابط کے ساتھ رائج ہے وہاں عوامی سطح پر سیاسی اور معاشی خوشحالی کی صورتحال باقی دُنیا سے بہت آگے ہے۔ثابت شُدہ حقیقت ہے کہ اس وقت پوری دُنیا میں سب سے بہترین نظام جمہوریت سکینڈینیویا کے ممالک میں رائج ہے، مثال کے طور پر سویڈن جو کہ سکینڈینیویا میںسب سے بڑا ملک ہے، یہاں جمہوریت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ عوام کو خوشحالی دیتی ہوئی نظر آتی ہے، یہاں پر مرکزی اور صوبوں کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کا زبردست امتزاج پایا جاتا ہے ۔ مرکزی حکومت نے ہر قسم کے اختیارات مقامی حکومتوں کے سپرد کر رکھے ہیں، یونین کونسل کو یہاں پر کمیون کہاجاتا ہے، ہر علاقے کے یونین کونسل کے پاس تمام تر سکولوںکااختیار ہوتا ہے، اساتذہ کی بھرتی سے لے کر ان کی ترقی تک کا تمام اختیار مقامی حکومت کے پاس ہوتا ہے۔انہی مقامی حکومتوں کے زیرِ سایہ سکولوں میں اعلی معیاری تعلیم بھی دی جاتی ہے اور بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ مقامی حکومت بچوں کو ہر ماہ جیب خرچ دیتی ہے اور دوپہر کا کھاناہر سکول میں مفت دیا جاتا ہے۔اسی طرح یہاں صحت کا نظام بھی مقامی حکومتوں کے کنٹرول میں ہے، یہاں ایمرجنسی کی صورت میں تمام تر علاج مفت دی جاتی ہے جبکہ معمول کی چیک اپ کےلئے ایک چھوٹی سی فیس جمع کرانی ہوتی ہے، یہ فیس جب پاکستانی پیسوں کے حساب سے 18سے 20ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہے تو مریض کو فری کارڈ مل جاتا ہے جس پر پورے ایک سال کے لیے معمول کی چیک بھی مفت ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بجلی اور پانی کی تقسیم کا سارا نظام بھی مقامی حکومتوں کے سپرد ہے، بجلی اور پانی کی فراہمی تو مقامی حکومتیں کرتی ہی ہیں جبکہ بِلوں کی ادائیگیاں بھی مقامی حکومتوں کو ہی کی جاتی ہیں، ٹیکسوں کی مد میں ایک چھوٹا حصہ مقامی حکومتوں کے پاس جاتا ہے جبکہ بہت بڑا حصہ مرکزی حکومت کے پاس اس لیے جاتا ہے کہ مرکزی حکومت پورے ملک کا عمومی نظام چلاتی ہے۔ویسے تو اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن مختصراً یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہاں جمہوری نظام مکمل صورت میں رائج ہے جس کا فائدہ عوام کو بہترین نظام تعلیم، صحت اور انصاف کی صورت ملتا ہوا نظر آتا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان میں جہاں جمہوریت ہمیشہ سے نامکمل صورت میں رائج رہی ہے اور اس کا نقصان عوام کو ہر سطح پر ہوتا ہوا نظرآتا ہے، تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کے نام پر ووٹ لینے کےلئے میدان میں اترتی ہیں ان کی جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز موجودہ نہیں ہوتی‘نامکمل جمہوریت میں نہ تو انصاف ہوتا ہوا نظر آتا ہے، نہ ہی تعلیم کا نظام تسلی بخش صورت میں کام کرتا دکھائی دیتا ہے، صحت کا نظام غریب کو قطار میں کھڑا کرتا ہے جبکہ امیر کو گھر کی دہلیز پر سہولت مہیا کرلیتا ہے، کرپشن اور ہر طرح کی مالی بدعنوانی کو جائز سمجھ کر کیا جاتا ہے، اور جب کبھی ان حکمرانوں کو جوابدہ ہونے کے لیے کہا جاتا ہے تو ان کی نامکمل جمہوریت مکمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے اور جواب مانگنے والے سے انہیں آمریت کی بُو آنے لگتی ہے۔