وزیراعظم عمران خان نے معاشی استحکام کے فوائد عام آدمی کو ترجیحی بنیادوں پر منتقل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے‘اسلام آباد میں حکومت کی اقتصادی ٹیم کے اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران مالیاتی توازن بہتر رہا۔ایف بی آر کی وصولیوں میں پانچ فیصد اضافہ ہوا اور حسابات جاریہ کا سرپلس ایک ارب بیس کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا غیر ملکی ترسیلات زر میں27 فیصد اضافہ ہواغیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں نو اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا اور سٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائرتیرہ ارب چالیس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ گاڑیوں اور کھاد کی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ معیشت بہتر ہونے کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے کے لئے اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ مہنگائی کی شرح کم کی جاسکے اور شہریوں کو ریلیف مل سکے‘تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار کے دوران پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود قانون سازی کے شعبے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں‘گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے اور ماحول کے تحفظ کے لئے ملک بھر میں شجرکاری مہم اور سیاحت کے فروغ کےلئے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار ان شعبوں میں سرمایہ لگانے کی پیش کش کررہے ہیںتعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی اصلاحات کی جارہی ہیں۔قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بھی کوششیں تیز کردی گئی ہیں اور نیب کا دعویٰ ہے کہ اربوں روپے کرپٹ عناصر سے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں اخراجات پر کنٹرول کی وجہ سے بھی خزانے پر بوجھ کم ہوا ہے تاہم عام شہری حکومت کی کارکردگی کو اپنے پیمانے پر دیکھتے ہیں عوام کے نزدیک وہی حکومت مقبول اور کامیاب ہے جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرے‘ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کےلئے ٹھوس اقدامات کرے، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں اور ناجائز منافع خوروں کو نکیل ڈالے‘ امن و امان کی صورت حال تسلی بخش ہو۔ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ حکمرانوں تک رسائی آسان ہو تاکہ لوگ اپنے مسائل اور شکایات ان تک پہنچا سکیں‘عوام کی توقعات کے پیمانے پر حکومت اب تک پوری نہیں اتر سکی ہے ارباب اختیار کے مطابق اس کی وجوہات میں سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار، کرپشن اور کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری شامل ہیں۔تاہم ماضی کی حکومتوں کو کوستے اور تمام برائیوں کو انہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کوئی حکومت پانچ سال کی مدت نہیں گزارسکتی ۔ کسی حکومت کی استعداد جانچنے کے لئے تین سال کی مدت کافی ہوتی ہے۔ گزشتہ اڑھائی سالوں کے دوران انڈسٹری بند ہونے، کاروبار میں مندی اور اداروں میں معاشی بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوچکے ہیں مہنگائی کا جن حکومت کے قابو میں ہی نہیں آرہا۔ ہر دوسرے تیسرے دن کسی ضروری آئٹم کی قیمت میں اضافے کی نوید سنائی دیتی ہے جن میں بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ ڈیزل ‘ چینی‘ گھی‘ کوکنگ آئل‘ آٹا‘ دالیں اور سبزیاں شامل ہیں۔حکومت کی معاشی ٹیم کو اگر قومی معیشت میں بہتری کے واضح آثار نظر آرہے ہیں تو اسکے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری سے بے حال شہریوں کو قیمتوں میں مناسب کمی کی صورت میں کچھ ریلیف مل سکے مہنگائی اور بے روزگاری دو ایسے ایشوز ہیں جن کی بنیاد پر حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں اور ان کے جلسوں میں عوام کی شرکت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ عوام حکومت کو اپنے غم و غصے سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں‘وزیراعظم بخوبی جانتے ہیں کہ انکی حکومت کو کسی بیرونی اور اندورنی سیاسی خلفشار سے خطرہ نہیں‘مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو مایوسی کا شکار بنادیا ہے اور عوام کی مایوسی کو امید میں بدلنے کےلئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں فوری کمی اورپبلک و پرائیویٹ سیکٹر میں روزگارکے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔