سکول بیگز وزن کامعاملہ

 محض تین عشرے قبل تک سرکاری سکولوں کامعیار اس قدر بلندتھاکہ نجی سکولوں کے نام سے بھی کم ہی لوگ واقف ہوا کرتے تھے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں جب نام نہاد جمہوری دور شروع ہوا تو سیاسی بنیادوںپرسرکاری ملازمتوں کو بانٹا جانے لگا اسی عمل کے دوران ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ بھی سیاسی بنیادوں پربھرتی کئے گئے اور یوں سرکاری سکولوں کامعیار متاثرہوتاچلاگیا جس کے باعث اس وقت نجی سکولوں کاکلچر تیز ی سے پل پھول چکاہے معیار تعلیم گرتاجارہاہے فیسیں بڑھ رہی ہیں من مانیا ں عروج پرہیں جس کے باعث سب سے زیادہ والدین اور طلبہ ہی متاثرہورہے ہیں اگر طلبہ کی بات کی جائے تو ان کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم سکول بیگز کا بلاضرورت بڑھتاوزن ہے چھوٹے بچوں کے لئے اس وقت اپنے سکول بیگز اٹھانا عملاً ناممکن ہوچکاہے جس کے باعث کئی قسم کے مسائل پیدا ہورہے ہیں ماضی میں سکول بیگز کے وزن کے حوالہ سے حکومتوں نے بارہا دعوے کئے کہ اس کے لئے قانون سازی کرکے ایک معیار مقرر کیاجائے گا مگر چونکہ ماضی میں کسی بھی حکومت کے دورمیں تعلیم کوترجیح نہیں مل سکی تھی اس لئے سکول بیگزکاوزن مسلسل بڑھتا چلاگیا تاہم اب یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ ہفتہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کے بیگز کے وزن کا تعین کرنے کے لئے خیبر پختونخوا سکولز بیگز (وزن کی حد) بل مجریہ 2020ءکی منظور ی دے دی ، طلبہ وطالبات کے لئے کلاس کے مطابق بیگ وزن کے تعین سے زیادہ وزنی بیگز دینے اور قانون سے انحراف کی صورت میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو دو لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا جاسکے گا، خیبر پختونخوا سکولز بیگز قانونی مسودے کے مطابق بل کے تحت ہر کلاس کے لئے الگ الگ بیگ کے وزن کا تعین کیا گیا ہے جماعت اول کے بچوں کے لئے بیگ کا وزن 2.4 کلوگرام ، جماعت دوئم کے لئے 2.6 کلوگرام ، تیسری جماعت کے لئے 3 کلوگرام ، چوتھی جماعت کے لئے 4.4کلوگرام ، پانچویں جماعت کے لئے 5.3 کلوگرام ، چھٹی جماعت کے لئے 5.4 کلوگرام ، ساتویں جماعت کے لئے 5.8 کلو گرام ، آٹھویں جماعت کے لئے 5.9 کلوگرام، نویں جماعت کے لئے 6 کلوگرام ، دسویں جماعت کے لئے 6.5 کلوگرام ، گیارہویں جماعت کے لئے 7 کلوگرام اور بارہویںجماعت کے لئے 7 کلوگرام کا وزن مقرر کیا گیا ہے۔ مقررہ وزن سے زائد سکول بیگ والے سرکاری اداروں کے پرنسپلز کے خلاف تادیبی کاروائی ہوگی ‘پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو دولاکھ تک جرمانہ کیا جائیگا جیساپہلے ذکر کیاگیاکہ بچوں کے سکول بیگز کے وزنی ہونے کی شکایات بڑی عام تھیں بالخصوص والدین اور طلباءطالبات کے لئے وزنی بیگز کا ایک بڑا مسئلہ درپیش تھا۔ گاہے بگاہے اس سلسلہ میں اخبارات میں خبریں بھی آتی تھیں کہ حکومت وزنی بیگز کا مسئلہ قانونی طور پر حل کرے۔صد شکر کہ صوبائی اسمبلی نے قانون پاس کرکے یہ اہم اور خالصتاً بچوں کی صحت سے متعلق یہ مسئلہ حل کرلیاہے سکول کے وزنی بیگز سے بچوں اور بچیوں کی کمر یں دہری ہوتی تھیں ،بچوں کی جسمانی صحت متاثر ہوتی تھی اکثر بیمار پڑتے تھے جس سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہوتا تھا اور والدین پر ان کے علاج معالجہ کا بوجھ الگ پڑتا تھا۔ پرانے وقتوں میں سکولز بیگز بچوں اور بچیوں کی استطاعت کے مطابق ہوتے تھے یہ وہ وقت تھا جب یہاں نجی تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے، نجی تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ان میں مقابلہ شروع ہوگیا، نصاب انتہائی مشکل مروج کیا گیا ، فیسیں ڈبل مقرر کی گئیں مختلف پروگراموں کے ذریعے طلباءوطالبات سے پیسے لئے جانے لگے لازمی بات ہے کہ اس مسابقت کا بوجھ والدین اور طلباءوطالبات کو اٹھانا پڑا لیکن سب سے زیادہ نقصان طلباءوطالبات کا یہ ہوا کہ ان پر وزنی سکول بیگز کا بوجھ پڑا ۔ چھوٹے بچوں کے بیگز 10 سے 12کلو تک پہنچ گئے تھے ۔ اس سلسلہ میں صوبائی اسمبلی نے مناسب قانون سازی کردی ہے اور ہر کلاس کے سکول بیگز کا تعین کردیا گیا جس پر اگر صدق دل سے عمل درآمد کیا گیا تویہ طلباءطالبات کے لئے ایک بڑی خوشخبری ثابت ہوگی۔ اس ضمن میں سرکاری سکولوں کے پرنسپلز کو ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے کہ وہ متعین کردہ سکول بیگز کو چیک کیا کریں اگر اس سلسلہ میں کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو سرکاری سکولوں کے پرنسپلز ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے اس ضمن میں اب حکومت کو اگلے تعلیمی سال کے آغازسے قبل آگہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری اورنجی تعلیمی اداروں کے ساتھ قریبی رابطوں کے ذریعہ حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے تاکہ جب نیا تعلیمی سال شروع ہو تو سکول بیگز کے نئے قانون پر عملد ر آمد کو یقینی بنایا جاسکے عام طورپرہمارے ہاں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر ان پرعملدر آمد کی نوبت کم ہی آتی ہے اس لئے کم ازکم اس بارایسانہیں ہوناچاہئے ۔


8