پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے محاذ پر سب سے زیادہ مشکل پیپلزپارٹی کے لئے بنی ہوئی ہے‘ جس کے فیصلوں پر کسی بھی دوسری جماعت کی طرف سے آنے والی تجاویز کا اثر اور اُس بارے اتفاق رائے کبھی بھی اس قدر نہیں دیکھا گیا۔ اگر نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان میثاق جمہوریت کو سنگ میل قرار دیا جائے تو تب سے آج تک دونوں جماعتیں کبھی بھی نہ تو اِس قدر قریب رہیں اور نہ ہی رابطے اِس قدر فعال رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سے جب یہ پوچھا گیا اور بات ہنسی مذاق میں اُڑا دی گئی کہ ”کیا وہ پیپلزپارٹی ہی کے چیئرمین ہیں یا اُنہوں نے نواز لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے؟“ سیاست کے میدان میں کچھ کر دکھانے کی لگن میں بلاول کے لئے پیپلزپارٹی کی ساکھ اور اپنا شخصی توازن برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں لیکن یہ انہیں آسان سمجھ رہے ہیں۔ نواز لیگ کے مو¿قف کی فوری تائید و حمایت میں بلاول کے لئے ممکن نہیں رہے گا تو وہ مستقبل میں اپنی انفرادی سیاسی شناخت قائم رکھ سکیں۔سوال گندم‘ جواب چنا۔ عجب ہے کہ احتساب مقدمات اور اِس کے موجودہ سربراہ کی تقرری پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے ادوار حکومت کے دوران ہوئی لیکن اِس ادارے یا اِس کی کارکردگی پر دونوں جماعتوں کو کبھی بھی اِس طرح اعتراض نہیں رہا تو آج اچانک سب غیرقانونی اور غیرجمہوری کیسے ہو گیا؟ ’پی ڈی ایم‘ سے سرزد ہونے والے غلط فیصلوں میں قبل از وقت اعلانات بھی شامل ہیں‘ جیسا کہ قانون ساز اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ نواز لیگ تو اُسی دن اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہتی تھی جس دن نواز شریف نااہل قرار دیئے گئے اور اُنہوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگایا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو ماضی میں ہوئے فیصلوں اور اُن کے نتائج کو فراموش نہیں کرنا چاہئے جب 1985ءمیں پارٹی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اُس کے منفی اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی سندھ کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور نواز لیگ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ وہ بلوچستان‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قدم جمائے جہاں نواز لیگ زیادہ بہتر ووٹ بینک رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لئے آسان فیصلے مشکلات بھرے نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ’پی ڈی ایم‘ فیصلے کے مطابق اراکین اسمبلی مستعفی ہو بھی جائیں اور اِس کے نتیجے میں سندھ اسمبلی بھی ختم کردی جائے تب بھی سینیٹ کے انتخابات پر اِس کا اثر نہیں پڑے گا تو پھر سینیٹ الیکشنز سے قبل سندھ اسمبلی توڑنے سے پیپلزپارٹی کو کیا حاصل ہوگا؟ پیپلزپارٹی کے سینئر اراکین ”مریم بلاول بہن بھائی“ جیسے تعارف کو زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے اور چاہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم‘ تحریک کا حصہ رہنے کے باوجود ’پیپلزپارٹی‘ اپنا انفرادی تشخص برقرار رکھے۔ دوسری طرف حکومت نے ’پی ڈی ایم‘ تحریک کے غبارے سے ہوا کم کرنے کے لئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کچھ کی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے معاشی محاذ کی جانب توجہ مبذول ہونے کے خاطرخواہ ”بہتر نتائج“ برآمد ہو رہے ہیں۔ دسمبر دوہزار بارہ میں گزشتہ ماہ کے مقابلے مہنگائی کی شرح میں 0.26فیصد کمی اگرچہ انتہائی معمولی دکھائی دے رہی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ فی الوقت سولہ بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور تیرہ اشیا ءکی قیمتوں میں کمی وہ اچھی خبر ہے جس کا عوام کو ایک عرصے سے انتظار تھا۔ ثابت ہوا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان اِسی طرح توجہ زرعی ترقی پر بھی دیں تو غذائی اجناس کی مہنگائی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن تحریک انصاف کو اپنے 2 بنیادی وعدے یاد رکھنے چاہئیں۔ ایک احتساب اور دوسرا ادارہ جاتی ڈھانچوں کی اصلاح اور اِن دونوں محاذوں پر تحریک نے اب تک جو بھی اصلاحات کی ہیں وہ سب کی سب ناکافی اور عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات سے کم ہیں۔ تحریک انصاف کے دامن پر بہت سارے داغ ہیں لیکن کم سے کم وزیراعظم عمران خان کے بارے اگر کوئی یہ کہے کہ وہ نواز لیگی اور پیپلزپارٹی قیادت ہی کی طرح بدعنوان ہیں تو یہ بات عوام کی اکثریت تسلیم نہیں کرے گی۔ اگر حقیقت میں ایسا ہی ہوتا کہ عمران خان نواز شریف اور آصف علی زرداری سے مختلف نہ ہوتے تو حزب اختلاف کی گیارہ جماعتیں پر مشتمل اتحاد (پی ڈی ایم) زمین آسمان ایک کر چکا ہوتا اور عوام کی اکثریت ’پی ڈی ایم‘ کے ساتھ کھڑی ہوتی! جبکہ صورتحال یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کے باوجود تحریک انصاف کی پرواز اُونچی ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے اِس مرتبہ ملک کے سربراہ (وزیراعظم) کے ذاتی کاروبار‘ اثاثے اور مفادات اُن کے منصب و اختیارات سے متصادم نہیں ہیں۔تیرہ دسمبر بھی گزر گیا‘ اب کیا ہوگا؟ حزب اختلاف نے بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ ’بڑا جلسہ‘ بھی کر دکھایا۔ نواز شریف نے کارکنوں سے ایک مرتبہ پھر خطاب کرنا تھا کر لیا‘ تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑا؟ اِسی قسم کا بڑا جلسہ محترمہ بینظیر بھٹونے جولائی 1986ءمیں خودساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹنے کے موقع پر کیا تھا۔ اِسی قسم کے بڑے جلسے علامہ طاہر القادری اور عمران خان بھی مینار پاکستان پر کر چکے ہیں‘ جن سے حکومت نہیں بدلی‘ عمران خان کی قسمت اچھی تھی جو نواز شریف کے نام متحدہ عرب امارات کا اقامہ نکل آیا اور عرب ممالک کے اِسی قسم کے اقامے دیگر لیگی قائدین نے بھی حاصل کر رکھے تھے ‘پاکستان کے موجودہ مسائل وہی ہیں جو چودہ اگست دوہزارچودہ کے روز تھے جب عمران خان اور طاہر القادری نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا۔ سیاسی تحریکیں جہد مسلسل کا نام ہوتی ہیں۔ چند ایک جلسے جلوس کرنے سے حکومتیں نہ تو ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی نظام کی اصلاح ہوتی ہے لیکن سارے کا سارا نقصان عام آدمی (ہم عوام) کا ہوتا رہتا ہے۔ جن کی سیاسی جماعتوں سے توقعات ہوتی کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد اُن کی رائے (ووٹ) کا احترام اور قدر کریں گی ۔