جرمنی کی چانسلر انگلا مرخیل نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر کرسمس کے موقع پر ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔
کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کے حکومتی اعلان پر عمل درؤمد 16 دسمبر سے شروع ہو گا اور یہ پابندیاں 10 جنوری تک عائد رہیں گی۔
اس دوران سکول، غیر ضروری اشیا کی دکانیں، شراب خانے اور ریستوران بند رہیں گے۔
لوگوں کا ہجوم روکنے کے لیے آتش بازی کے سامان کی فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ بازار کے باہر بھی مے نوشی کی اجازت نہیں ہو گی۔
نئی پابندیوں کے تحت کرسمس کے دوران گھروں کے اندر بھی 10 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہو گی۔ فی الحال گھروں کے اندر پانچ افراد پر مشتمل خاندان کو ایک دوسرے ملنے کی اجازت ہے۔
البتہ، گرجا گھروں، مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں حفاظتی اقدامات کے تحت محدود اجتماعات کی اجازت ہو گی۔
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی تھیں کہ زیادہ سخت پابندیاں عائد نہ کی جائیں۔ لیکن کرسمس کی شاپنگ کے دوران رش کی وجہ سے ہم سخت اقدامات پر مجبور ہوئے۔
انگلا مرخیل نے ان پابندیوں کا اعلان اتوار کو برلن میں وفاقی اور ریاستی حکام کے ایک اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کیا۔
حالیہ عرصے میں جرمنی میں کورونا وائرس کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اب جرمنی وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں بارہویں نمبر پر ہے۔
امریکہ کی‘جانز ہوپکنز یونیورسٹی’کے اعداد و شمار کے مطابق اتوار کو جرمنی میں 14 ہزار 700 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 13 لاکھ 50 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
اس مہلک وائرس سے جرمنی میں اب تک 22 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کے انتہائی نگہداشت وارڈز میں دباؤ بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سخت فیصلے کیے ہیں۔
جرمن حکام کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے ہونے والے معاشی نقصان کے ازالے کے لیے حکومت ایک اور پیکج کا اعلان کر رہی ہے جس کے تحت 16 دسمبر سے 10 جنوری تک روزگار سے محروم ہونے والے افراد کی مالی مدد کی جائے گی۔