عرب اسرائیل تعلقات کا نیاموڑ

اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اہم اسلامی ملکوں کےساتھ ان کے رابطے جاری ہیں عنقریب سعودی عرب اور سلطنت عمان بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کا اعلان کرینگے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونےوالی خبروں میں کہا گیا ہے کہ مراکش کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنےوالا اگلاملک سلطنت عمان ہوگا۔سعودی عرب بھی اسرائیل کےساتھ امن معاہدے پرغور کررہا ہے۔ اسرائیلی اخبار کا دعویٰ ہے کہ جنوری میں رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب امریکی صدرجوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے قبل سعودی عرب اسرائیل کےساتھ امن معاہدوں میں شامل ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ مزید کچھ اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں ۔جس کے بعد سعودی عرب کےلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے میںآسانی ہوجائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل حکام کے انڈونیشیا، نائیجریا، مالی، جبوتی، موریطانیہ، ملائشیا، برونائی دارالسلام، بنگلہ دیش اور مالدیپ سے بھی رابطے ہیں۔پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کا یہ موقف رہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی شہ پر اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے جب تک اسرائیل بیت المقدس ،غزہ اور گولان سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا قبضہ نہیں چھوڑتا۔ یہودی حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسرائیل کا قیام 1948میں عمل میں آیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور دیگر ممالک سے یہودیوں کے قتل عام کے بعد جو لوگ بچ گئے تھے انہیں امریکہ نے تل ابیت میں لاکر بسالیا تھا۔ واشنگٹن کی غیر مشروط حمایت ، فوجی اور مالی مدد کی وجہ سے اسرائیل معاشی لحاظ سے ایک مضبوط ریاست بن گئی ہے ۔ گذشتہ72سالوں میں اس نے غزہ، وادی گولان سمیت فلسطین کے سینکڑوں مربع میل علاقے پر قبضہ جمالیا ہے۔ یاسر عرفات نے اسرائیل کےخلاف کچھ مزاحمت دکھائی تھی۔ اس سے پہلے اور بعد میں آنےوالے فلسطینی رہنماﺅں نے آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے کےلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ طویل محاذ آرائی کے باوجود جب مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک نے محسوس کیا کہ وہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے تل ابیت کےساتھ امن معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کرلیا اور اس کےساتھ تعلقات کے فروغ اور معاشی ترقی کےلئے باہمی تعاون کے معاہدے کئے۔یو اے ای کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر عرب ملکوں نے بھی اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی اور یکے بعد دیگرے مختلف عرب ممالک اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات استوار کررہے ہیں۔ سعودی حکومت نے اگرچہ فلسطینوں کے حقوق کی ضمانت کی شرط پر اسرائیل سے امن معاہدے کا عندیہ دیا تھا تاہم نظر یہی آرہا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر اسرائیل اور سعودی حکومت کے درمیان مفاہمت ہوگئی ہے۔سعودی عرب کی طرف سے تل ابیت کےساتھ سفارتی تعلقات قائم ہونے کی صورت میں پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلئے امریکہ، برطانیہ اور عرب ممالک کا دباﺅ بڑھ سکتا ہے۔ اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بہر حال فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور یہاں کے مکینوں کوانکے بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ اگر اسلامی ممالک معاہدات کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں یعنی جو مسئلہ خون خرابے اور جنگ و جدل کے ذریعے حل نہیں ہوسکا وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کی سبیل نکل آتی ہے تو پرامن تصفیہ سب سے بہتر ہے۔