کون بھول سکتا ہے کہ ’چھ دسمبر‘ کے روز پشاور کے ’خیبر ٹیچنگ (شیرپاو¿) ہسپتال‘ میں زیرعلاج مریضوں کی موت صرف اِس وجہ سے ہوئی کیونکہ اُنہیں آکسیجن (گیس) کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی! مختلف امراض کا شکار اِن مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں علاج معالجے کی ضرورت تھی لیکن افسوس کہ سرکاری علاج معالجے کی ایک بڑی سہولت ناکافی ثابت ہوئی! آکسیجن فراہمی کےلئے ذمہ دار کون تھا اور قصور وار کا تعین کرنے کے لئے حسب روایت تحقیقات کرنے کا اعلان کیا گیا تشکیل کردہ کمیٹی سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ’گیارہ دسمبر‘ تک رپورٹ طلب کی لیکن گیارہ دسمبر بھی گزر گیا اور حکومت کی جانب سے ہسپتال کی انتظامیہ (بورڈ آف گورنرز) کو مزید وقت دے دیا گیا ہے کہ وہ قصورواروں کا تعین کریں اور اُن کے خلاف رسمی و نمائشی کاروائی کی بجائے سخت گیر کاروائی کی جائے۔ یہ معاملہ صرف یہ نہیں کہ چھ مریض مر گئے بلکہ یہ چھ افراد کا قتل ہے اور تاحال قاتلوں کی نشاندہی نہیں ہو سکی ہے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی اور مزید تاخیر نہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو یہ معاملہ صرف اور صرف پولیس کو سونپ دینا چاہئے جو ہسپتال کے در و دیوار سے بھی سچ اگلوا لیں گے! غضب خدا کا اربوں روپے کے خرچ سے تعمیر و فعال علاج کے کسی مرکز میں اگر آکسیجن جیسی بنیادی ضرورت بھی میسر نہیں تو وہاں ہونے والے علاج معالجے کے معیار و سہولیات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں! تحریک انصاف نے پہلے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالوں کو مالی و انتظامی امور میں خودمختار بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ علاج معالجے کی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔ عوام کی شکایات کا ازالہ ہوگا اور ہسپتالوں کے وسائل پر بوجھ کم کیا جائے گا لیکن یہ تینوں بنیادی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے بلکہ بورڈ آف گورنرز کی صورت ہسپتال کے مالی وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہوا، خیبر ٹیچنگ میں چھ اموات کی کہانی فرائض کی بجاآوری میں غفلت‘ ذمہ داریوں کے تعین میں ابہام پر مبنی کارکردگی‘ ناقص منصوبہ بندی اور جرم کے گرد گھومتی ہے اور اِن میں سے ہر ایک کے بارے الگ الگ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ابتدائی تحقیقات میں ہسپتال کے ڈائریکٹر اور 6 دیگر ملازمین کو قصوروار قرار دیکر ملازمتوں سے معطل (suspend) کر دیا گیا تھا جس پر حزب اختلاف کی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے بھی عدم اطمینان سامنے آیا تھا اور قصورواروں کو ملازمتوں سے برطرف کرنے کا کہا گیا جس کے بعد سے تحقیقات کا ازسرنو آغاز کیا گیا ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ چاہتی تھی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے چھ افراد کے لواحقین کو دس دس لاکھ (مجموعی طور پر ساٹھ لاکھ) روپے ادا کرنے کے بعد یہ معاملہ رفع دفع کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہاں انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے اور نجانے ایسے کتنے ہی مریضوں کی اموات اِس سے قبل بھی آکسیجن کی کمی کے باعث ہو چکی ہوگی جسے طبعی موت قرار دے دیا گیا ہوگا کیونکہ انتہائی نگہداشت کی وارڈوں (ICUs) وغیرہ میں مریض صرف معا لجین کے زیرنگرانی ہوتے ہیں اور اُن کے تیمارداروں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں۔ چھ دسمبر کے سانحے کی خبر بھی کسی کو کان و کان نہ ہوتی اگر رات دس بجے سے ایک بجے کے درمیان آکسیجن کی کمی سے متعلق ہنگامی حالت سے متعلق خبر تیمارداروں تک نہ پہنچتی اور معاون طبی عملہ تیمارداروں کو اپنے طور پر آکسیجن کا بندوبست کرنے کا نہ کہتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں اِس بات کو معمول سمجھا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ضرورت کےلئے مریض کے ساتھ آئے تیمارداروں کو پرچہ (نسخہ) تھما دیا جائے کہ وہ اِن ضروریات (بیشتر ادویات) کا ازخود بندوبست کریں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہسپتال سرائے خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد سے زیادہ تیمارداروں کے بستر لگے ہوتے ہیں کیونکہ ہر مریض کے لئے چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی تیمار دار کو ’ہوشیارباش (موجود)‘ رہنا ہوتا ہے۔ توجہ طلب ہے مگرمچھ کے آنسو اور نمائشی اقدامات و اعلانات اور روایتی تحقیقات کافی نہیں۔ کارکردگی کا احتساب آزاد ذرائع سے ہونا چاہئے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ سرکاری ہسپتالوں کو مالی و انتظامی خودمختاری دینے سے کام کاج میں بہتری آئی یا سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی خراب ہوئی ہے؟ مغربی ممالک کی طرز پر مالی و انتظامی خودمختاری دینے کے بعد صوبائی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور اب حکومتی فیصلہ ساز اپنی آنکھوں کے سامنے ’چھ اموات نہیں بلکہ چھ قتل‘ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں! جن مغربی ممالک سے ہسپتالوں کی خودمختاری کا تصور لیا گیا اگر وہاں آکسیجن نہ ملنے کے باعث ہلاکتیں ہوتیں تو کیا اِسی قسم کا ردعمل دیکھنے میں آتا کہ چند افراد معطل ہوتے؟ صوبائی کابینہ کے جملہ اراکین کا تجاہل عارفانہ اور خیبرٹیچنگ ہسپتال میں چھ دسمبر کے روز پیش آنے والے واقعات پر ردعمل ناقابل یقین حد تک مجرمانہ ہے! ضرورت ہے کہ خیبرٹیچنگ سمیت جملہ سرکاری ہسپتالوں کی خدمات اور مالی و انتظامی معاملات کا جائزہ لیا جائے اور ازسرنو ترتیب و تشکیل پر مبنی اصلاحات لائی جائیں بصورت دیگر ’چھ دسمبر‘ کے روز ہوئی ’چھ اموات‘ جیسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔