اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں کے اتحادپاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے عوام کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے ،ملک کو قرضوں ،غربت،مہنگائی ،بیروزگاری ،ناخواندگی سے نجات دلانے، سماجی اور معاشی ناہمواری دورکرنے اور ملکی معیشت کو جدید سائنسی اورتکنیکی واطلاعاتی صنعتی انقلاب کے تقاضوںسے ہم آہنگ کرنے کےلئے ہنگامی اقدامات اٹھانے کے حوالے سے نکات پر مشتمل ”اعلان لاہور“جاری کردیا ہے۔ آئین کی اسلامی شقوں،اٹھارویں ترمیم اورشہریوںکے بنیادی انسانی،سیاسی اور معاشی حقوق کا دفاع اورسیاست سے ہر طرح کی مداخلت کوختم کرنا بھی اعلان لاہور میں شامل ہے ۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امراءمیں منعقدہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اعلان لاہور پر دستخط کردیئے ۔پی ڈی ایم نے ایک ایسا پاکستان تشکیل دےنے کا عزم کیا جہاں آئین کی حرمت مقدم ہو، ریاست کے تمام انتظامی ادارے ایک منتخب انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے تابع ہوں ،جو قومی پالیسی سازی کا منبع ہو، عدلیہ آزاد ہو اور بغیر کسی دباﺅ کے فیصلے کر سکے،میڈیا کی آزادی اظہاررائے کوتحفظ حاصل ہو ۔ تمام منتخب ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اورعوام کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ اپنے آزادانہ حق رائے دہی کے ذریعے انہیں منتخب اور رخصت کر سکیں ۔اپوزیشن جماعتوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ملک میں برداشت اوربھائی چارے کو فروغ دیں گے، انتہا پسندی کا قلع قمع کریں گے اورسیاست کو مداخلت سے پاک کریں گے ۔اعلان لاہور میں مطالبہ کیاگیا کہ دھاندلی کی پیداوار اور ملک کو معاشی ، سیاسی اور خارجی محاذوں پر درپیش بدترین بحرانوںکی ذمہ دارموجودہ حکومت 31جنوری 2021ءسے پہلے مستعفی ہو۔ بصورت دیگر ملک بھر سے موجودہ حکمرانوں کے خلاف یکم فروری کو فیصلہ کن لانگ مار چ کا اعلان کیا جائے گا۔اپوزیشن کے اعلان لاہور میں تقریباً وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو لندن میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں شامل تھیں اور یہی باتیں 1973کے متفقہ آئین میں بھی درج ہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں تو پاکستان کو کسی دوسرے میثاق اور اعلان کی ضرورت ہی نہیں۔اعلان لاہور کا بنیادی مقصد اگرملک میں جمہوری نظام کومضبوط کرنا ہے تو اس میثاق پر ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قائدین سمیت حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں اور پارلیمنٹ سے باہر موجود جماعتوں کے رہنماﺅں کے دستخط بھی ضروری ہیں۔اس اہم دستاویز پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے اپوزیشن کو حکومت سے بھی رابطہ کرنا چاہئے۔پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعت کو نظر انداز کرکے استحکام جمہوریت کا معاہدہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا۔ 2008کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پانچ سال اور مسلم لیگ ن بھی پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹتی رہی دونوں جماعتوں نے دس سالوں میں میثاق جمہوریت کی ایک شق پر بھی عمل درآمد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی اور انتخابی اتحاد ہوتے رہے ہیں اور ان اتحادوں میں شامل جماعتوں کو جب اقتدار ملا تو انہوں نے سابق اتحادیوں کے ساتھ طے پانے والے سارے معاہدوں کو نہ صرف بھلادیابلکہ ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کیں۔آج بھی ماضی کی دو بڑی حکمران جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف قائم مقدمات نمٹانے میں مصروف ہیں ۔ملک میں حقیقی جمہوریت کا قیام ابھی تک ایک سہانا خواب ہے منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل حکومتیں تو بنتی رہی ہیں لیکن ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ہماری سیاسی جماعتوں کو ایوان اقتدار سے باہر رہ کر ہی جمہوریت کی یاد ستاتی ہے۔ جب عنان اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو سب کچھ بھلادیا جاتا ہے۔