کورونا وبا کے ’منفی اثرات‘ اور خطرات کا تعلق صرف صحت کے شعبے یا علاج معالجے کے وسائل و دستیاب سہولیات میں کمی بیشی اور منصوبہ بندی کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ اِس وبا کے باعث قریب ہر شعبہ متاثر دکھائی دے رہا ہے اور اِس سے قبل کسی بھی وبا کے اثرات اِتنے پہلوو¿ں سے سامنے نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کی تجویز پر حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً اقدامات اور اعلانات کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کورونا وبا پھیلنے کا جاری سلسلہ رک سکے اور علاج معالجے کی سہولیات پر بوجھ میں مزید اضافہ نہ ہو۔ جو لوگ اِس انتہائی ہنگامی و نازک صورتحال میں بھی احتیاط نہیں کر رہے اُنہیں خیبرپختوا میں کورونا پھیلنے کے لئے اعدادوشمار پر نظر کرنی چاہئے۔ ہر دن قریب پانچ سو افراد میں کورونا وبا کی تشخیص ہو رہی ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد 53 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ پشاور کی بات کی جائے تو ہر 100میں سے 19افراد میں کورونا کی تصدیق ہونے کی وجہ سے قومی سطح پر پائے جانے والے کورونا متاثرین کی دوسری بڑی تعداد کا تعلق پشاور سے ہے لیکن صرف پشاور ہی نہیں بلکہ ایبٹ آباد‘ مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے کورونا متاثرین سے متعلق آنے والی ’تشویشناک خبریں‘ متقاضی ہیں کہ اِس مرض کو سنجیدگی سے لیا جائے۔کورونا وبا مذاق نہیں اور اِس سے صرف مریض ہی نہیں بلکہ معالجین (ڈاکٹرز اور معاون طبی عملہ) بھی متاثر ہے اور اب تک خیبرپختونخوا کے 36 ڈاکٹر کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِن میں سے 22 کورونا وبا کی پہلی لہر جبکہ 14 کورونا وبا کی موجودہ (ماہ¿ ستمبر سے جاری) دوسری لہر کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک ڈاکٹر بننے کے عمل (مشق) کا اگر جائزہ لیا جائے تو اِس غیرمعمولی نقصان کی حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ کس طرح اپنی زندگی کا بہترین وقت اور جمع پونچی طب کی تعلیم حاصل کرنے پر خرچ کرنے والے صرف اِس وجہ سے جاں بحق ہو رہے ہیں کیونکہ اُن کے گردوپیش میں لوگ احتیاط نہیں کرتے اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں کو فراہم کیا جانے والا حفاظتی سازوسامان ناکافی ہے۔ اُمید تھی کہ کورونا وبا کی پہلی لہر کے بعد الگ ہسپتال یا عارضی (فیلڈ) ہسپتال قائم کئے جائیں گے لیکن خیبرپختونخوا میں عمومی علاج معالجے کی سہولیات ہی میں کورونا مریضوں کو بھی رکھا جاتا ہے‘ جس سے نہ صرف ڈاکٹر بلکہ علاج کی غرض سے آئے دیگر بیماریوں کا شکار مریض بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ پوری صورتحال اِس حد تک تشویشناک (آو¿ٹ آف کنٹرول) ہو چکی ہے کہ صوبائی محکمہ¿ صحت کے فیصلہ ساز اِس بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں دیگر امراض کےلئے عمومی معائنہ (او پی ڈیز) کو ایک مرتبہ پھر بند کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہسپتالوں کی ’او پی ڈیز‘ کے بند کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ڈاکٹروں اور دیگر زیرعلاج مریضوں کو بچایا جائے جبکہ عوام کی اکثریت سیاسی و غیرسیاسی محرکات کی وجہ سے کورونا وبا سے نہ تو خود احتیاط کر رہی ہے اور نہ ہی احتیاط کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے! اِس مرحلہ فکر پر 2 نکات لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ خیبرپختونخوا میں اب تک کورونا وبا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے 36 ڈاکٹروں میں سے 98فیصد کا تعلق پشاور سے ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے صوبے کے اِس سب سے بڑے ضلع میں سب سے زیادہ بے احتیاطی عام ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے فرائض کی ادائیگی کے دوران کورونا وبا سے متاثر ہونے والے ڈاکٹروں کو ”شہید“ کا لقب تو دیا جاتا ہے لیکن اُن کی خدمات کے اعتراف میں ”شہید پیکج“ نہیں دیا جاتا جو کابینہ منظور کر چکی ہے۔ یہاں صرف ڈاکٹروں ہی کو نہیں بلکہ اُن کے ساتھ معاون طبی عملے کے لئے مثالی مراعات کے اعلان کی ضرورت ہے بلکہ علاج معالجے کی ایسی خصوصی سہولت کا قیام بھی ہونا چاہئے جہاں صرف طبی یا معاون طبی عملے کے علاج معالجے کی سہولیات کا بندوبست ہو۔ اِس قسم کے خصوصی ہسپتال مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے قائم ہیں لیکن کورونا وبا سے ڈاکٹروں کو لاحق خطرے اور درپیش مشکلات صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کی جانب سے بھی ’دردمندانہ توجہ‘ کی مستحق و متقاضی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں عمومی علاج معالجے کی سہولیات (او پی ڈیز) معطل کرنے کی تجویز ’عالمی ادارہ¿ صحت‘ کی جانب سے آئی ہے‘ جو دنیا بھر میں کورونا وبا پر نظر رکھے ہوئے ہے اور عالمی ادارہ صحت یہ بھی چاہتا ہے کہ خیبرپختونخوا و ملک کے دیگر حصوں میں جہاں کورونا وبا پھیلنے کی شرح دس فیصد یا اِس کے قریب یا دس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے وہاں ’لاک ڈاو¿ن‘ نافذ کیا جائے کیونکہ عالمی سطح پر کورونا وبا پھیلنے کی قابل قبول شرح ڈھائی سے تین فیصد ہے جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں کئی شہر بیس فیصد کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔ یادش بخیر کورونا وبا کی پہلی لہر میں مساجد سے اموات کے اعلانات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور جنازے میں صرف قریبی عزیزواقارب اور اہل محلہ ہی شریک ہوتے تھے لیکن وبا کی دوسری لہر (جو کہ پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ہے) لیکن اِس میں خاطرخواہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ دیہی علاقوں میں حجرے‘ ڈھیڈیاں اور بیٹھکوں کی بحال رونقیں کسی بھی ایک دوسرے سے صورت ہمدردی‘ خیرسگالی اور خیرخواہی نہیں بلکہ یہ غیرضروری طور پر خطرے کو دعوت دینا ہے۔ باردیگر گزارش ہے کہ کورونا وبا کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے والے خود سے پوچھیں‘سوچیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا اَب بھی احتیاط کا محل نہیں؟