”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت .... آلات مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔“ لیکن اَلیکٹرانک آلات صرف ’جذبات‘ ہی کے دشمن نہیں بلکہ اِن مشینوں پر انحصار سے اِنسانی معاشرے کی اَخلاقی و اَساسی قدریں (بنیادیں)‘ جیسا کہ آپسی رشتوں اور تعلقات میں یقین و اعتماد بھی باقی نہیں رہا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑے وسائل آلات کے اِستعمال کے 2 بنیادی طریقے ہیں۔ ایک قانونی اور دوسرا غیرقانونی۔ قانونی طریقہ یہ ہے کہ کوئی صارف صرف وہی آلات استعمال کرے‘ جو اُس کی ملکیت ہیں یا جن کو اِستعمال کرنے کےلئے اُس نے مالک سے اجازت حاصل کی ہے۔ غیرقانونی استعمال اِس کے برعکس ہے کہ بنا اجازت لئے کسی بھی دوسرے شخص کا کمپیوٹر‘ موبائل فون یا انٹرنیٹ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مختلف ویب سائٹس پر اُس کے محفوظ کوائف تک رسائی حاصل کر لی جائے۔ انگریزی زبان میں اِس عمل کو ’ہیکنگ (Hacking)‘ کہا جاتا ہے اور ہیکنگ کا فعل کرنے والے کےلئے تکنیکی اصطلاح ”ہیکر (Hacker)“ اِستعمال کی جاتی ہے۔ برطانوی آکسفورڈ لغت میں ہیکر کی تشریح کرتے ہوئے 2 خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1: ایسا شخص جو دوسروں کے استعمال میں الیکٹرانک آلات تک بنا اجازت رسائی حاصل کرے اور 2: ایسا ہنرمند شخص جو اپنے علم و تجربے کے ذریعے ہر قسم کے الیکٹرانک آلات تک رسائی حاصل کر سکے۔ انگریزی زبان کی معروف امریکی لغت ’ویبسٹر (Webster)‘ کے مطابق ”ایسے افراد جو کمپیوٹرز بارے تکنیکی علوم پر مہارت کی بنیاد پر سطحی معلومات رکھنے والوں کے کھاتوں (اکاو¿نٹس) تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ انگریزی زبان کی ایک اور معروف برطانوی لغت کیمبرج (Cambridge) کے مطابق ”ہیکر دوسروں کی لاعلمی کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔“ جب انسانی معاشرہ کمپیوٹروں سے آشنا نہیں تھا تب ’ہیکر‘ لفظ زخمی کرنے یا ضَرب لگانے والے (ضارب) کے لئے استعمال ہوتا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک اِخلاقی و قانونی جرم کےلئے بھی کسی دوسرے لفظ کی بجائے ’ہیکر‘ کو ہی زیادہ موزوں سمجھا گیا۔ اِس تمہید کو مدنظر رکھتے ہوئے 2 ضمنی باتیں پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ ہیکنگ 2 قسم کی ہوتی ہے ایک اخلاقی (قابل قبول جرم) اور دوسری غیراخلاقی (قابل سزا جرم) اور دوسری بات یہ ہے کہ کمپیوٹر کی دنیا (سائبر ورلڈ) میں کوئی بھی صارف محفوظ نہیں اور ’ہیکنگ‘ کا شکار ہر خاص و عام ہو سکتا ہے جیسا کہ اَمریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس تمام تر حفاظتی حکمت عملیاں اور اِحتیاطی تدابیر اِختیار کرنے کے باوجود بھی کئی مرتبہ ”ہیک“ ہو چکے ہےں تو جہاں نت نئی اِیجادات و ٹیکنالوجی پر فخر اور عالمی طاقت ہونے کا زعم رکھنے والے ملک کا سربراہ نشانہ بن سکتا ہو وہاں کسی عام صارف اور بالخصوص پاکستان جیسے تیسری دنیا کہلانے والے ملک کا اِنٹرنیٹ پر انحصار کس قدر محفوظ و مامون اور قابل بھروسہ و اعتماد ہو سکتا ہے۔تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک کمپیوٹر ماہر وکٹر شیوا (Victor Gevers) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاو¿نٹ کے ’پاس ورڈ (خفیہ کوڈ)‘ کا اندازہ لگا کر کامیابی سے اُن کے کوائف تک رسائی حاصل کی اور دنیا کو بتایا کہ ماہ اکتوبر میں صدر امریکہ کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ کا پاس ورڈ MAGA2020 تھا۔ اپنے اِس دعوے کے ثبوت میں اُس نے کئی ایک ایسی تصاویر اور کوائف (کے سکرین شاٹس) بھی شیئر کئے جن تک بطور صارف صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہی کو ممکنہ رسائی حاصل ہو سکتی تھی لیکن اُس کے اِس اقدام کو ”جرم“ تصور نہیں کیا جارہا کیونکہ اُس نے اَمریکی حکام‘ اَمریکی خفیہ اِداروں سی آئی اے‘ اَیف بی آئی اور ٹوئیٹر کمپنی کو اپنی خدمات کی پیشکش کی ہے کہ کس طرح ٹوئٹر کی سیکورٹی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اِس قسم کی ’ہیکنگ‘ کو کمپیوٹرز کی دنیا میں ”اَخلاقی (ethical hacking)“ تصور کیا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے مذکورہ ہیکر کو سزا نہیں دی گی کیونکہ اُنہوں نے ’اَخلاقی دائرہ کار‘ سے تجاوز نہیں کیا۔ بائیس اکتوبر سے جاری اِس تنازعے کے تفصیلات ہالینڈ کی حکومت نے جاری کی ہیں جبکہ امریکی صدر کے دفتر (وائٹ ہاو¿س) کی جانب سے اِس کی مسلسل تردید کی جاتی رہی ہے کہ صدراتی انتخابات کی مہم کے دوران کسی بھی مرحلے پر امریکی صدر کا ٹوئیٹر اکاو¿نٹ ہیک نہیں ہوا امریکی دارالحکومت (واشنگٹن ڈی سی) سے ’چار ہزار میل‘ دور (نارتھ اٹلانٹک نامی سمندر پار) ہالینڈ میں بیٹھ کر اگر کوئی ہیکر امریکہ کی انتہائی اہم شخصیت کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے تو ایسا پہلی اور آخری مرتبہ نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس اِس سے قبل بھی ہیک ہو چکے ہیں اور جیسے جیسے یا جس قدر اِنٹرنیٹ کو قابل اِعتماد اور قانونی و غیرقانونی (غیرمتعلقہ) دراَندازی سے محفوظ بنانے کی کوششیں تیز کی جاتی ہیں‘ سوشل میڈیا اُسی قدر ’ناقابل بھروسہ‘ ثابت ہوتا ہے۔