شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا لیکن شوق ظلم‘ اذیت اور باعث آزار بھی نہیں ہونا چاہئے۔ پشاور کے پہلے اور ملک کے سب سے بڑے چڑیا گھر کا افتتاح ’12فروری 2018ئ‘ کے روز ہوا۔ 29 ایکڑ پر مشتمل اِس چڑیا گھر کا منتظم ادارہ جنگلات‘ ماحولیات اور جنگلی حیات ہے‘ جس نے چڑیا گھر کے قیام اور دیکھ بھال سے متعلق صوبائی حکمت عملی کو نافذ کیا اور اِسی کی حدود (پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ) میں چڑیاگھر بنایا گیا ۔ ابتدا میں لاہور کے چڑیا گھر اور ڈھوڈیال‘ مالاکنڈ‘ نتھیاگلی سے جانور پشاور لائے گئے جبکہ جون 2018ءمیں جنوبی افریقہ سے دو بنگالی چیتے اور زرافہ جبکہ سانپ گھر کا اضافہ کیا گیا۔ نومبر 2018ءمیں متحدہ عرب امارات سے جانور لائے گئے لیکن وقت کے ساتھ چڑیا گھر کی آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہوتی رہی‘ وجہ یہ تھی کہ جانوروں کی خوراک اور اُن کے علاج معالجے (صحت) پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ کچھ پشاور کی گرمی نے بھی ستم ڈھایا اور چڑیا گھر کا افتتاح ہونے سے قبل ہی کئی جانور مر گئے لیکن چونکہ یہ ایک اعلیٰ سطح پر کیا گیا فیصلہ تھا اِس لئے جانوروں کی زندگی‘ صحت‘ خوراک اور پشاور کی گرمی و سردی جیسی شدید موسمی صورتحال جیسے خطرات یکسر نظرانداز کر دیئے گئے۔ جانوروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہونے والوں اور تفریح کا یہ ’ظالمانہ انداز‘ فراہم کرنے والوں کو ’ہم زمین مخلوقات‘ کی فطرت اور موافق حالات کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے ۔ پندرہ دسمبر کے روز ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر سے متعلق ایک مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ مذکورہ فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 2 ریچھوں کی اردن منتقلی سے متعلق توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ چڑیا گھر حراستی کیمپس ہیں اور جانوروں کو ان کے غیر فطری ماحول میں رکھنا تکلیف دہ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریچھوں کی اردن منتقلی کے انکار کے حوالے سے بیان پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ وزیر اعظم کی جانوروں کے ساتھ تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبل ازیں 2 شیروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ غلط تاثر دیا گیا کہ اس میں عدالت کا کوئی مفاد ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماہرین کی رائے پر ایک بار پھر وائلڈ لائف بورڈ نے فیصلہ کیا ہے‘ جولائی دوہزاراُنیس سے اب تک جانوروں کی تکلیف کا کون ذمہ دار ہے؟وزارت موسمیاتی تبدیلی کو چڑیاگھر کا چارج اس لئے دیا گیا تھا کہ چڑیا گھر کے معاملے پر سیاست ہو رہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی واحد دلچسپی صرف بے زبان جانوروں کی فلاح ہے‘ ہمیں اپنے اس فیصلے پر فخر ہونا چاہئے۔ دنیا کو پاکستان کے اس فیصلے کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ جانوروں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اُنہیں اُن کے قدرتی ماحول (آبائی علاقوں) ہی میں رہنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ لوگ جانوروں سے متعلق اپنے روئیوں‘ سوچ اور نظریوں کو تبدیل کریں۔