ہاﺅسنگ سکیم ، کچھ خدشات اور تحفظات

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب آدمی کو اپنا گھر بنانے کے لیے کمرشل بینک آسان شرائط پرقرضے فراہم کر رہے ہیں گورنر سٹیٹ بینک نے وزیراعظم کی زیر صدارت ہاوسنگ سکیم سے متعلق اجلاس کو آگاہ کیا کہ تمام کمرشل بنکوں کے ساتھ مل کر سٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں آسان قرضوں کے حصول کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔کمرشل بینکوں نے ملک بھر میں 7,700 شاخوں میں گھر تعمیر کرنے کیلئے قرضے فراہم کرنےکی سہولت شروع کر دی ہے‘غریب اور متوسط طبقے کی آگاہی کے لیے میڈیا مہم بھی جاری ہے‘کمرشل بینکوں کو قرضوں کے حصول کےلئے کثیر تعداد میں درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے شکایات کے ازالے کے لیے کمپلینٹ پورٹل کا اجرا کر دیا ہے جس پر صارفین قرضوں کے حصول میں پیش آنےوالی شکایات درج کر سکتے ہیں‘کمرشل بنکوں کی کارکردگی جانچنے کےلئے سٹیٹ بینک نے طریقہ کار وضع کیا ہے اور اس عمل کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔بنکوں کے سربراہان نے حکومت کو اس اہم قومی پروگرام کی تکمیل کیلئے مکمل تعاون فراہم کرنےکی یقین دہانی کرائی‘ اجلاس کو بتایا گیا کہ اس منصوبے میں کل 35 ہزاریونٹس تعمیر کیے جائیں گے غریب اور متوسط طبقے کےلئے الگ یونٹس مختص ہوں گے ابتدائی مرحلے میں 4ہزاریونٹس تعمیر کیے جارہے ہیں منصوبے کا پی سی ون اور ماسٹر پلان منظور کیا جاچکا ہے‘گھروں کی تعمیر کےلئے قرضے نیشنل بنک‘ حبیب بنک‘یونائیٹڈ بنک‘مسلم کمرشل بنک‘ الائیڈ بنک‘ بنک الحبیب‘عسکری بنک‘ میزان بنک‘ فیصل بنک‘ جے ایس بنک اور بنک آف پنجاب‘دبئی اسلامک بنک‘سونیری بنک‘بنک الاسلامی‘حبیب میٹرو بنک‘البرکا بنک‘سٹینڈرڈ چارٹرڈ‘ فرسٹ ویمن بنک اور بنک آف خیبر کی شاخوں سے دستیاب ہونگے‘گھروں کی تعمیر کےلئے سرمایہ فراہم کرنے والے ایک ادارہ پہلے سے کام کر رہا ہے مگر اس کے منافع کی شرح زیادہ اور شرائط نہایت سخت ہونے کی وجہ سے عام لوگ اس سے استفادہ نہیں کرپاتے۔کسی مجبوری کی وجہ سے اگر دو دچار قسطوں کی ادائیگی نہ ہوسکے توباقی سود مرکب کی وجہ سے ماندہ قسطیں ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور یوں مکان پر ادارے کا قبضہ ہوتا ہے اور وہ اسے نیلام کرکے اپنا سرمایہ وصول کرتا ہے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مالک کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وزیراعظم ہاﺅسنگ سکیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کےلئے ضمانتی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پانچ سال سے بیس سال تک ادائیگی کی سہولت دی گئی ہے اور شرح منافع پانچ سے سات فیصد ہے۔اس منصوبے کی بدولت ملک کے لاکھوں شہریوں کا اپنا گھر تعمیر کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگاپاکستان میں ایک کروڑ سے زائد رہائشی مکانات کی ضرورت ہے ہاﺅسنگ سکیم کے ساتھ حکومت سرکاری اراضی پر سستے مکانات تعمیر کرکے اقساط میں ادائیگی کے طریقے پر لوگوں کو فراہم کرے تو ایک کروڑ گھروں کی تعمیر کا حکومتی وعدہ بھی پورا ہوگا اور بے گھر لوگوں کو سرچھپانے کے لئے چھت کی سہولت بھی میسر آئے گی۔حکومت نے ہاوسنگ سکیم کےلئے اربوں روپے کا فنڈز مختص کیا ہے‘ سرکاری وسائل کو ہڑپ کرنے کےلئے بڑے مگرمچھ بھی میدان میں آسکتے ہیں اس ملک کے غریب عوام‘ تنخواہ دار اور متوسط طبقے کی بہبود اور ترقی کےلئے شروع کئے گئے اس انقلابی منصوبے سے کچھ عناصر ناجائز فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں اسلئے قرضوں کے اجراءاور وصولوں کے نظام کو شفاف اور مانیٹرنگ کو موثر بنانے کی ضرورت ہے‘ حکومت زرعی ترقیاتی بینک کے ذریعے زراعت کو فروغ دینے کےلئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتی ہے۔لیکن ان قرضوں کا 60فیصد غیر زرعی مقاصد کےلئے استعمال کیاجاتا ہے ۔ بینک افسران کی ملی بھگت سے لوگ نئی گاڑیاں خریدنے، شادی بیاہ‘ ٹھیکے حاصل کرنے ‘پرائیویٹ سکول یا دکان کھولنے اور سیرسپاٹے کے لئے بھی زرعی قرضے لیتے ہیں بینک افسران کی ملی بھگت سے دوسرے لوگوں کی زمینوں کے کاغذات پر بھی لوگ بھاری قرضے حاصل کرتے ہیں اور بااثر لوگ آفت زدہ یا دیوالیہ ہونے کا ڈرامہ رچاکر وہ قرضے معاف کراتے ہیں یا پھر ڈیفالٹر بن کر بھاگ جاتے ہیںقومی وسائل کے اس غیر قانونی استعمال کو روکنے کےلئے مانیٹرنگ اور آڈٹ کا نظام مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں کی فلاح وبہبود کےلئے مختص کئے گئے وسائل سے کوئی غیر مستحق ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔