پشاور کب سے آباد ہے اور اِس کی پہلی اینٹ کب اور شہر کے کس حصے میں رکھی گئی تھی‘ اِس بارے میں ثبوتوں کے ساتھ سائنسی جواب مختلف مقامات پر کی جانے والی کھدائیوں سے حاصل ہونے والے نمونوں سے اخذ کیا جاتا ہے باالخصوص ’گورگٹھڑی‘ نامی عمارت کے احاطے میں کی گئی کھدائیوں کا گواہ عالمی اداروں کو بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آثارقدیمہ کے عالمی ادارے پشاور کی تاریخی و قدیمی حیثیت کو تسلیم کریں۔ تاریخ پشاور کا دوسرا پہلو وہ سفر نامے اور تاریخی واقعات پر مبنی کتابیں یا دستاویزات ہیں‘ جن میں پشاور کا ذکرملتا ہے۔ بدھ مت کی ابتدا ءڈھائی ہزار سال قبل ہوئی اور ایک طویل عرصے تک ”گندھارا تہذیب‘ ‘کہلانے والی ثقافت کا مرکزی شہر پشاور رہا تو اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ پشاور کی پہلی اینٹ کم از کم چھبیس سو سال قبل رکھی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ پشاور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا ءکے گیارہ ممالک (برونائی‘ برما‘ کمبوڈیا‘ تیمور لسیتھ‘ انڈونیشیاء‘ لاو¿س‘ ملائیشیا‘ فلپائنز‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور ویتنام) کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہے جوآسیان کہلانے والے خطے کی تہذیب کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا ءکا حصہ ہے جس میں افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال اور سری لنکا شامل ہے اور یوں پشاور صرف جنوبی ایشیا ءہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیائی خطے کا بھی سرتاج ہونے کا منفرد اعزاز رکھتا ہے۔ کسی بھی دور میں پشاورکا اپنے ماضی سے تعلق منقطع نہیں ہوا بلکہ یہاں تہذیبیں اور مذاہب شانہ بشانہ زندہ ہیں‘جن کی نشانیاں تعمیرات کی صورت دیکھی جا سکتی ہیں۔پشاور شہر کے وسط میں قدرے بالائی مقام پر ”گورگٹھڑی‘ ‘کی عمارت قریب ایک مربع کلومیٹر میں ”تاریخ پشاور‘ ‘کی آئینہ دار ہے‘ جہاں ایک چاردیواری کے اندر پشاور کی پوری تاریخ پھیلی اور سمٹی دکھائی دیتی ہے۔ یہیں بدھ مت اور سکھ مذاہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ بھی موجود ہے جس کے پہلے نگران و بانی ”گرو گورگھ ناتھ‘ ‘کے نام سے ”گورگٹھڑی‘ ‘منسوب ہے۔ ایک تاریخی حوالے سے مطابق مقامی لوگ ”گورگھ دی ہٹی‘ ‘کے نام اِس مقام کو شناخت کرتے تھے جو بعد میں گورگٹھڑی کہلائی اور باالخصوص مغلیہ‘ سکھ اور برطانوی راج کے ادوار میں اِس مقام کو توجہ و ترقی دی گئی۔ گورگٹھڑی کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اِسے محفوظ کر لیا گیا ہے اور متعلقہ صوبائی محکمے کی کوشش ہے کہ اِسے اقوام متحدہ کے اُن عالمی اثاثوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے جنہیں محفوظ قرار دیا جاتا ہے اور جسے دیکھنے کے لئے پوری دنیا سے سیاحوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں سیاحت کا فروغ ممکن ہے تاہم اِس سلسلے میں کوششوں کی رفتار ”کورونا وبا‘ ‘کے سبب سست ہو گئی ہے ۔ خبر یہ ہے کہ پشاور کے ”گورگھ ناتھ مندر (شیو ٹیمپل)‘ ‘میں کی گئیں تعمیرات مسمار کر دی گئی ہیں ۔ گرو گورگھ ناتھ گورگٹھڑی اور پشاور کی بنیاد سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں ’گرو گورگھ ناتھ جی‘ کے علاوہ دیگر مقدس ہستیوں سے منسوب کم از کم تین مندر قائم ہیں‘ جہاں ہندوو¿ں کو رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہ صرف اپنی عبادات کے لئے ایک خاص وقت اور خاص ایام میں نہ صرف پشاور بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی یہاں اکٹھا ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل مندر کے جنوبی حصے میں‘ صحن کی دیوار کے ساتھ پانی جمع کرنے کےلئے پلاسٹک کی ٹینکی‘ ہاتھ دھونے کےلئے ایک عدد واش بیسن‘ وضو خانے کی طرز پر بیٹھ کر ہاتھ پاو¿ں دھونے کےلئے دو ٹوٹیاں اور ایک الیکٹرک کولر نصب کیا گیا ۔ علاوہ ازیں اپنی مدد آپ کے تحت جمع کئے گئے مالی وسائل سے قریب دس فٹ لمبی پٹی اور اِس سے جڑے فرش و دیوار پر فیروزی رنگ کی سرامک ٹائیلز لگائی گئیں‘ مندر کے داخلی دروازے سے متصل بائیں جانب کی جانے والی اِن تعمیرات کا مقصد دیگر شہروں سے آنے والے زائرین اور سنگتوں کے لئے عبادت سے قبل تیاری یا تھکاوٹ اُتارنے کے لئے ہاتھ منہ دھونے اور پانی کی دستیابی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھا گورگھ ناتھ مندر کی ظاہری شکل و صورت تبدیل کئے بغیر اِس کے داخلی جملہ انتظامات ہندو برادری کو سونپنے اور مندر کے معاملات میں بیجا مداخلت روکنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جا رہا ہے ۔ اِس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پشاور شہر کی نمائندہ ہندو تنظیموں نے اپنے وسائل کے مطابق خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں رہنے والی ہندو برادری سے مشاورت کی ہے اور اقلیتی امور کے وفاقی و صوبائی وزرا ءکوگرو گورگھ ناتھ مندر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے مطالبات سے مطلع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ضروری تعمیرات کرنےکی اجازت دی جائے ‘ ذہن نشین رہے کہ محکمہ¿ آثار قدیمہ کی جانب سے گورگٹھڑی کی عمارت کو پاکستان کے پہلے ’ آرکیالوجیکل پارک‘ کا درجہ دیا گیا ہے ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ ”مندر عبادت کی جگہ ہے‘ جہاں منہ ہاتھ دھونے‘ کھانا پکانا جیسی بنیادی سہولیات فراہم ہونی چاہئیں۔“ گورگھ ناتھ مندر کو سہولیات کی فراہمی حکومتی محکموں کی ذمہ داری ہے ۔