گزشتہ دنوں کوہاٹ روڈ سے گزر رہا تھا ‘حسب معمول گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی‘ سینکڑوں لوگ رش میں پھنسے ہوئے تھے ‘ایسے میں مخالف سمت سے ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی دی ‘دیکھا تو ہر کوئی اپنی سوچوں میں گم تھا ‘کسی نے ایمبولینس کے آوا ز کی جانب توجہ ہی نہ دی ‘کسی نے سنی ان سنی کردی ‘کوئی کم تنخواہ میں گھر کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے پریشان تھا ‘کسی کو بیٹی کی شادی کی فکر لاحق تھی تو کوئی مریض ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بعد آپریشن کے ناقابل برداشت اخراجات کے بارے میں پریشان تھا ‘کئی نو دولتئے اس فکر میں تھے کہ آنے والی رقم کو کہاں خرچ کیا جائے تاکہ زیادہ منافع ہو اور سیاہ کو سفید بھی کیا جا سکے چند ایک ایسے بھی تھے جن کی بیوی کا فون آئے آدھاگھنٹہ ہو چکا تھا اور انکو حکم دیا گیا تھا کہ ساتھ دہی گھر لے آئیں کچھ ڈرائیور سوچ رہے تھے کہ رش کم نہ ہوئی تو وہ آٹھ بجے والے ڈرامے سے محروم رہ جائینگے ‘سب سوچوں میں تھے مگر کسی کو فکر نہ تھی اس مریض کی جو ایمبولینس میں پڑا تھا شاید وہ زندگی کی جنگ لڑرہا ہو کسی کو یہ فکر بھی نہ تھی کہ ایمبولینس میں مریض کیساتھ موجود اسکے والد‘ والدہ‘ بیٹے‘ بھائی‘ بیوی یا بیٹی پر کیا گزر رہی ہوگی سائرن کی آواز فضا میں ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگارہی تھی مگر ایمبولینس کو راستہ صرف اس وقت ملا جب سب گاڑیاں گزر گئیں اس دوران شاید ایک آدھ ڈرائیور نے راستہ دینے کی کوشش بھی کی ہو یا شاید اس بارے میں سوچا ہو مگر آگے پیچھے دیکھا کہ کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا تو خود بھی توجہ دوسری جانب مبذول کرلی اور خود کو تسلی دینا شروع کی کہ کم از کم اس نے راستہ دینے کا ارادہ تو کیا تھا ترقیافتہ ممالک اور مہذب معاشروں میں صورتحال اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے ایمبولینس یا آگ بجھانے والی گاڑی کی سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے تو خود کار انداز میں ہر کوئی گاڑی سائیڈ پر کرلیتا ہے تاکہ ایمبولینس اور فائربریگیڈ کی گاڑی کو گزرنے کا راستہ فور ی طورپر کھل سکے ایک بھی ڈرائیور نہیں ہوتا جو حرکت نہ کرے یا راستہ دینے میں تاخیر کرے ایک ایسی ہی صورتحال چند ماہ قبل اس وقت دیکھی گئی جب ہانگ کانگ میں گیارہ لاکھ کے قریب لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے سائرن کی آواز آئی تو لاکھوں کا مجمع ایسے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا کہ ایمبولینس کیلئے راستہ کھل جائے جس طرح حضرت موسیٰؑ نے چھڑی پھینک کر دریائے نیل کے پانی کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے علیحدہ کر دیا تھا تاکہ انکے ساتھی دریا کے پار چلے جائیں اسی نوعیت کی ایک ویڈیو ایک اور مغربی ملک کے بارے میں بھی ساری دنیا میں پھیلی جس میں درجنوں گاڑیوں کے ڈرائیور ایمبولینس کی آواز سن کر لمحوں میں اسکے لئے راستہ بنا دیتے ہیں تاکہ مریض کی جان بچ سکے ہمارے ہاں صورتحال اسکے برعکس ہے ہمارے ہاں ہر کسی کو کوئی ضروری کام نہ ہوتے ہوئے بھی جلدی ہوتی ہے اس جلد بازی میں اکثر تھوڑی بہت رش دیکھ کر لوگ الٹی طرف پر گاڑی دوڑا دیتے ہیں اور پھر دونوں جانب سے سڑکیں اس طرح بند ہو جاتی ہیں کہ پانچ منٹ کی تاخیر ڈیڑھ گھنٹے میں بدل جاتی ہے سینکڑوں لوگ جن میں مریض بھی شامل ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی جن کو انتہائی ضروری کام درپیش ہوتا ہے مگر وہ سب سڑکوں پرایک آدھ شخص کی غلطی کی وجہ سے گھنٹوں خوار ہوتے ہیں ہمارے ہاں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کیلئے بھاری جرمانے خصوصاً ایمبولینس کے حوالے سے بے حد ضروری ہیں کیونکہ ترقیافتہ ممالک میں اس طرح کی خلاف ورزی پر1000 ڈالر تک کے جرمانے عائد کئے جاتے ہیں ‘گزشتہ سال دبئی میں121 ڈرائیوروں کو ایک لاکھ تیس ہزار تک فی کس کے حساب سے جرمانہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے ایمبولینس کوراستہ دینے میں تاخیر کی تھی ہمارے ہاں بھی تعلیم اور شعور کے ساتھ ساتھ اس قسم کے جرمنے اور سزائیں ضروری ہیں تاکہ عوام کو احساس ہو اور لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں ایمبولینس اورآگ بجھانے والی گاڑیوں کیساتھ ہر ایمرجنسی گاڑی کا سڑک پر پہلا حق ہے۔