مثالی و اِنقلابی قدم

شاعر راہی فدائی نے تصور پیش کیا تھا کہ ”احساس ذمہ داری بیدار ہو رہا رہا ہے .... ہر شخص اپنے قد کا مینار ہو رہا ہے۔“ اور اِس تصور کی عملی شکل ضلع پشاور میں دکھائی دے رہی ہے جہاں ”ماہانہ تحصیل حاضری“ کے تحت ’ڈپٹی کمشنر‘ سے لے کر پٹواری اور ماتحت ریونیو عملہ کی ایک جگہ‘ ایک وقت پر موجودگی عملاً یقینی بنائی گئی ہے جو حقیقتاً ”انقلابی قدم“ ہے اور اِس کا آغاز (23 دسمبر) سے کیا گیا ہے‘ جس میں سرکاری دستاویزات میں کوائف کی درستگی‘ جائیداد کی ملکیت سے متعلق فرد نمبر کے اجرا‘ جائیداد کے انتقالات‘ رجسٹری‘ انکم سرٹیفکیٹ کا حصول‘ ریکارڈ معائنہ اُور ڈومیسائل کا اجرا (حسب اعلان متوقع طور پر) ہو گا۔ اُمید یہ بھی ہے ڈپٹی کمشنر پشاور‘ ڈسٹرکٹ (ضلعی) کلکٹر‘ تمام اسسٹنٹ کمشنرز‘ افسرمال‘ تحصیلدار اور تمام پٹواری کی حاضری یقینی بنانے کا عزم صرف ایک مرتبہ کا عمل نہیں ہوگا اور نہ ہی اُن تمام سرکاری اہلکاروں کی جانب سے عام آدمی (ہم عوام) کے لئے خود کو پیش کرنے کا یہ پہلا و آخری مظاہرہ ہوگا جو اپنی ناک پر مکھی تک بیٹھنے نہیں دیتے اور مذکورہ تمام خدمات (جائز و قانونی کام) بھی بنا مٹھی گرم کئے (رشوت دیئے) بغیر کروانا ممکن ہوگا۔ سرکاری دفاتر کے مقررہ اوقات کے دوران اہلکاروں کی حاضری یقینی بنانے سے بڑا ’انقلابی قدم‘ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ جائیداد کے انتقالات‘ رجسٹری اور فرد نمبر کا اجرا¿ کسی ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں ہونے لگے تو اِس سے ’ہونی سے بڑی انہونی‘ کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ڈومیسائل جیسی بنیادی ضرورت کےلئے ’ہم عوام‘ کو دھکے کھانے پڑتے ہیں جبکہ صوبائی حکومت وفاق سے سفارش کر سکتی ہے کہ ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC)‘ میں درج مستقل پتہ ہی صوبائی‘ ضلعی اور شہری تعلق (ڈومیسائل) کا مو¿جب سمجھا جائے۔ اِسی طرح ’اِی گورننس‘ کا وعدہ کرنے والوں سرکاری اداروں کی خدمات کسی ایک چھت اور مقام کے ساتھ ’آن لائن‘ بھی فراہم کرنی چاہئیں‘ جس کے ’خصوصی آن لائن چارجز‘ بھی اگر مقرر کر دیئے جائیں تو صارفین بخوشی ادا کرنے کےلئے تیار ہوں گے کیونکہ فرد نمبر‘ اِنتقال‘ رجسٹری‘ ریکارڈ درستگی یا ڈومیسائل کے اجرا¿ جیسی ضروریات کا حصول جس قدر (جوئے شیر لانے کے مترادف) مشکل بنا دیا گیا ہے‘ اُس کا اندازہ فیصلہ سازوں کو صرف اُسی صورت ہو سکتا ہے جب وہ بھیس بدل کر اور ایک عام صارف کے طور پر کسی سرکاری دفتر سے جائز و قانونی کام کےلئے رجوع کریں۔ ”شنیدہ کی بود مانند دیدہ“ اُن پر عیاں ہو جائے گا کہ کس طرح ایک سیدھے سادے کام کے لئے غیرضروری طور پر مختلف مراحل اور مراتب ترتیب و تشکیل دیئے گئے ہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں ”ون ونڈو آپریشن“ جیسی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ اُمید یہ بھی ہے سرکاری دفاتر کو آپس میں مربوط کرنے اور کسی ایک دن‘ ایک چھت تلے حاضری یقینی بنانے کا دائرہ صوبے کے دیگر اضلاع تک بھی پھیلایا جائے گا کیونکہ صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے (پشاور میں) سرکاری دفاتر اور اہلکاروں کی کارکردگی ہزار گنا بہتر ہے جبکہ دور دراز اضلاع اور بالخصوص پہاڑی علاقوں جہاں موسم سرما کی شدت زیادہ ہے‘ وہاں سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری اکثر نہ ہونے کے برابر رہتی ہے اور اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِن ملازمین کے نگرانوں (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنروں) کی فوج ظفر موج کی اکثریت غیرمقامی ہوتی ہے‘ جو موسم کی شدت سے بچنے کے لئے اپنے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں اور یوں موبائل فون جیسے ’ریمورٹ کنٹرول‘ کے ذریعے ضلعی معاملات چلائے جاتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اصولاً سرکاری دفاتر کو ایک دوسرے سے متصل عمارتوں (کسی ایک بلاک) میں ہونا چاہئے‘ جہاں وہ سبھی سہولیات کا بندوبست ہوں جو کام کاج سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر دستاویزات یا شناختی کارڈ کی فوٹواسٹیٹ (نقل) اگر چاہئے ہو تو اُس کےلئے صارف (سائل) کو میلوں دور کا ایڈریس نہ بتایا جائے۔ تجویز ہے کہ صوبائی حکومت مختلف سرکاری دفاتر کے اوقات کار‘ کاج کاج کی تفصیلات‘ رابطہ معلومات پر مبنی ”رہنما کتابچہ (گائیڈ بک)“ شائع کرے جن میں وہ سبھی قواعد و ضوابط (ضروریات) کا بھی ذکر ہو جو کسی سرکاری دستاویز کو حاصل یا اُس میں تبدیلی کے لئے درکار ہوتی ہیں۔