مختلف ممالک، اقوام اور حکومتوں کے درمیان باہمی تعاون، اشتراک کار ، قرضوں کی فراہمی ، تنازعات کے حل اورجنگ بندی سے متعلق معاہدوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی مہذب دنیا کی تاریخ ہے۔مشہور فلسفی روسو نے معاہدہ عمرانی کو انسانی تاریخ کا پہلا معاہدہ قرار دیا ہے۔جس کے تحت عوام نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ،بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے اور اجتماعی مفادات کا خیال رکھنے کی شرائط پر چند لوگوں کو حکومت کرنے کا اختیار دیا تھا۔اور خود عوام اور محکوم بننے پر آمادہ ہوئے تھے۔جس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔یہ معاہدہ کب اور کس قوم نے کیا تھا اس بارے میں بھی تاریخ اور مورخین دونوں خاموش ہےں۔قوموں اور حکومتوں کے درمیان اب تک ہزاروں لاکھوں معاہدے ہوئے ہیں ان میں کچھ تحریری ہیں اور کچھ زبانی کلامی معاہدے ہیں جن کو روایت قرار دے کر لوگوں نے سینوں سے لگا رکھا ہے۔اسلامی تاریخ میں میثاق مدینہ ایک اہم معاہدہ گردانا جاتا ہے۔بیسویں صدی میں اقوام عالم کے درمیان دو خونریز جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں افراد مارے گئے دونوں جنگوں کا اختتام شکست خوردہ اور فتح یاب اقوام کے درمیان معاہدوں پر ہوا۔لیگ آف نیشن اور موجودہ اقوام متحدہ کا قیام بھی اقوام عالم کے درمیان معاہدے کے بعد عمل میں آیا ۔دور جدید میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت کے درمیان میثاق جمہوریت اور حال ہی میں پاکستان کی گیارہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی تشکیل اور اعلان لاہور بھی اہم معاہدوں میں شامل ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی ناکامیوں اور کامیابیوں پر بحث سے قطع نظر یہ کریڈٹ پی ٹی آئی کو دینے میں کنجوسی نہیں کرنی چاہئے کہ انہوں نے سیاست میں بہت سی جدتیں متعارف کرائی ہیں حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں کے ساتھ معاہدہ کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق وزارتوں اور ڈویژنز کو حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے تحریری طور پر عہد کرنا ہوگا ۔اس تحریر کی اشاعت تک وزیر اعظم آفس اور42وفاقی وزارتوںکے درمیان معاہدے پر دستخط ہوچکے ہوں گے معاہدے پر وزیراعظم اورتمام وزارتوں کے انچارج وفاقی سیکرٹریوں نے دستخط لازمی قرار دیئے گئے تھے جس کے تحت وفاقی سیکرٹری اپنے شعبوں کے لئے حکومتی اہداف کے مقررہ ٹائم فریم میں عملدرآمد کے پابندہوں گے فیصلوں پر عملدرآمد میں تاخیر پر سیکرٹری ٹھوس جواز پیش کریں گے ،کابینہ اور وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاسوں کے فیصلوں اور احکامات پر عملدرآمدیقینی بنایا جائے گا،عوامی ریلیف اور فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے فیصلوں کو ترجیح دی جائے گی،بجلی اور گیس سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر عملدآمد کرایا جائے گا حکومت کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ صحت اورتعلیم سمیت دیگر ضروری حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے کیا گیاہے ۔طے شدہ اہداف پر عملدرآمد نہ کرنے والے سیکرٹریوں اور محکمے کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہوگی۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ہرمعاہدہ مساوی حیثیت کے دو یا زیادہ فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حکومت سپریم باڈی جب کہ وزارتیں اور محکمے حکومت کے ماتحت اور تابع ہیں ان کا کام ہی حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے۔حکم عدولی اور سرتابی کی صورت میں قواعد و ضوابط میں ان کے خلاف تادیبی کاروائی کے اصول طے ہیںحکومت نے سرکاری اداروں کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی انتظامی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔جبکہ غیر جانبدار لوگ فیصلے کو اس لحاظ سے خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ معاہدے کے ایک فریق یعنی حکومت کو کچھ دینا نہیں ہوتا۔ دوسرے فریق بیوروکریسی یا سرکاری محکموں کو محکمانہ قواعد اور حکومت سے طے شدہ معاہدے سے انحراف پر دوہری سزا بھگتنی ہوگی۔اندرون ریاست حکومت اور محکموں کے درمیان یہ تجرباتی معاہدہ کامیاب ہونے کی صورت میں اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایاجاسکتا ہے ۔آگے چل کرشہریوں اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں کے درمیان بھی معاہدے ہوں گے اور جو لوگ معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے انہیں پانی، بجلی ، گیس اور دیگر شہری سہولیات کے حصول کا حق حاصل نہیں ہوگا۔لیکن ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ماضی کے معاہدوں پر کونسا عمل درآمد ہوا جو آئندہ کے معاہدوں سے ہمیں خوف دامن گیر ہوگا پھر بھی اگر کوئی اچھا اقدام کیا جاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔