مرد کا زیور اسلحہ نہیں کتاب ، قلم ہے

ہمارے خطے میں ہر سال سینکڑوں بلکہ ہزاروں قیمتی جانیں دشمنیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں کئی دشمنیاں سالہا سال سے چلی آرہی ہیں کئی نوجوانوں کی جانیں اس کا ایندھن بن چکی ہیں بے شمار بے گناہ لوگ اس کی وجہ سے جان سے جاچکے ہیں مگر دونوں طرف سے بے جا انا اور بعض عناصر کی سازشوں کی وجہ سے یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ ان سب دشمنیوں کا جائزہ لیاجائے تو ان کی اکثریت جائیداد کے جھگڑوں سے شروع ہوئی ہیں۔ 5,4 مرلہ زمین سے پیدا ہونے والے تنازعات کے دوران لوگ کئی ایکڑ زمین فروخت کرکے دشمنیاں پال رہے ہیں مگر انااور ضد کی وجہ سے اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ دشمنیوں کی اور وجوہات میں خواتین کے حوالے سے معاملات، بچوں کی لڑائی یا معمولی تکرار شامل ہیں۔ ابتدا میں بات گالی گلوچ سے لڑائی جھگڑے اور پھر گولیاں چلنے تک چلی جاتی ہے۔ اس دوران علاقے کے شریف اور بااثر مشران صلح صفائی کی کوششیں کرتے ہیں یہ کوششیں اخلاص اور اچھی نیت سے کی جائیں تو بیشتر مسائل فوری حل ہو جاتے ہیں مگر ان صلح صفائی کرانے والوں میں بھی بعض اوقات ایسے عناصر ہوتے ہیں جو اس آگ کو بجھانے کے بجائے بھڑکانا چاہتے ہیں اور یوں معاملہ بے قابو ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی بےشمار دشمنیاں کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہیں۔ دونوں طرف سے لوگ نہ تو روزگار کرسکتے ہیں نہ ہی نوکری پر جاسکتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے اور ان کے ہاتھ میں قلم اور کتاب کی بجائے پستول اور بندوق پکڑا دیاجاتا ہے۔ بے روزگاری اور سالہا سال تک کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے کئی خاندان ایسے ہیں جو جرائم اور غیر قانونی دھندوں میں پڑتے ہیں۔ اسلحہ کے زور پر شریف لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں اور اس طرح نہ صرف گھر کا خرچہ چلاتے ہیں بلکہ دشمنی کا ایندھن بھی پیدا کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا جھوٹی انا اور ضد ان کی زندگیوں ان کے بچوں کے مستقبل اور ان کے اور ان کے اہل خانہ کے ذہنی سکون اور عزت سے بڑھ کر ہے؟ ہرگزنہیں جو کچھ ماضی میں ہوچکا ہے وہ بدلا نہیں جاسکتا مگر اپنا اور اپنے بچوں کامستقبل ہر کوئی بہتر بناسکتا ہے اگر انا، ضد، نفرتوں اور اسلحہ سے محبت سے پرہیز کیا جائے۔ خدا کی رضا کیلئے دوسروں کو معاف کیا جائے اور خود بھی سکون سے زندگی گزاری جائے اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیاجائے وہ دور اب گزر چکا ہے جب اسلحہ مرد کا زیور قرار دیاجاتا تھا۔ اب مرد اور عورت دونوں کا زیور قلم اور کتاب ہے۔ عزت اس کی ہے جو دوسروں کی عزت کرتا ہے اور لوگوں کو اذیت اور تکلیف دینے سے گریز کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے ان گروہوں کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی ہے جو سالہا سال سے اپنی دشمنی کی آڑ میں معاشرے میں اسلحہ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اور دوسروں کیلئے تکلیف اور معاشرے میں امن وامان خراب کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ پشاور کے صدر ڈویژن کے ایس پی وقار احمد نے اپنے علاقے میں ان گروہوں اور افراد کے خلاف بھرپور کاروائیوں کی ہدایت کی ہے جو نقص امن کا سبب بن رہے ہیں اور جن کی وجہ سے علاقے میں پرامن لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے ۔ تمام سرکلز اور تھانوں کو واضح ہدایات کی گئی ہیں کہ قتل مقاتلے کی وارداتوں میں مطلوب افراد کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کاروائیاں کی جائیں۔
کسی کو بھی اسلحہ کی نمائش اور اس کے ذریعے عام آدمی کو ہراساں کرنے نہ دیاجائے اور جو لوگ جرائم، زمینوں پر قبضوں اور بدمعاشی میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے۔ ساتھ ہی پولیس کو یہ بھی ہدایات ہیں کہ اگر مقامی مشران یا ڈی آر سی ان دشمنیوں کو ختم کرانے، صلح کرانے اور علاقے میں امن وامان قائم کرنے کیلئے مخلص کوششیں کرتے ہیں تو نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ ان کو اپنی طرف سے تعاون فرہم کیاجائے کیونکہ پولیس کا مقصد لوگوں کی جانوں کا ضیاع روکنا اور علاقے میں امن وامان ہر حال میں قائم کرنا ہے۔ اعداد وشمار سے معلوم ہوا ہے کہ صرف ایک پولیس سٹیشن کی حدود میں اس وقت دشمنی کے58 کیسز چل رہے ہیں، چند دشمنیاں جو 4/5 مرلوں یا معمولی تکرار سے شروع ہوئی تھیں وہ سالوں بعد درجنوں قیمتی جانیں، کئی ایکڑ زمین اور کروڑوں روپے نقصان کے بعد بھی چل رہی ہیں۔ پشاور اور صوبہ کے دیگر اضلاع میں ہر سال ان دشمنیوں میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو رہی ہیں مگر ادارے، معاشرہ اور حکومت اب تک مفید اور مو¿ثر اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ صدر ڈویژن کی پولیس کے اقدامات ان سب کیلئے قابل تقلید ہیں جو ان واقعات کا خاتمہ، ان خاندانوں میں صلح اور دونوں طرف سے اور عام لوگوں میں سے بے گناہ افراد کی زندگیوں کا خاتمہ روکنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پولیس، حکومت، ڈی آرسیز، جرگوں اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے کیونکہ لوگوں کے درمیان صلح کرنا، قیمتی جانوں کا ضیاع روکنا اور معاشرے میں امن قائم کرنا بڑا کار ثواب ہے۔ ان خاندانوں کا بڑوں کو بھی اپنے بچوں اور اہل خانہ کے بہتر مستقبل کیلئے پانے جوانوں کے ہاتھوں سے بندوق لیکران کو قلم اور کتاب تھمانا ہے اور ان کو یہ بات بتانی ہے کہ مرد کا زیور اسلحہ کبھی نہیں رہا بلکہ قلم اور کتاب اس کا زیور ہے۔