ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دنیا توانائی کے ماحول دوست اور متبادل ذرائع کی جانب راغب ہو رہی ہے اور یورپی و امریکی ممالک میں سال 2030ءتک 100فیصد بجلی کی طاقت سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد ایندھن کے دیگر ذرائع کے مقابلے زیادہ ہو جائے گی ضرورت اِس بات کی ہے کہ قدرتی وسائل کو ترقی دی جائے تاکہ ایندھن کی درآمد پر اخراجات کی صورت ضائع ہونے والا زرمبادلہ بچایا جا سکے۔دوسرا نکتہ: پاکستان کے آئین کی رو سے تیل و گیس اور کوئلے کے ذخائر جن صوبوں میں موجود ہیں اُن سے ہونے والی آمدنی اور ایندھن کے استعمال کا پہلا حق اُسی صوبے کا ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس (ایندھن) پر 80 فیصد انحصار کیا جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ بیس فیصد ضروریات پن بجلی اور کوئلے سے پوری کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنے لائق ہے کہ پاکستان میں سالانہ 3 فیصد کے تناسب سے ایندھن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور کوئلے کی طلب میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور یہی اضافہ طلب اور رسد کے درمیان فرق کی بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ہر سال منصوبہ بندی کرنے کے باوجود موسم سرما میں گیس اور موسم گرما میں بجلی کی کمی (لوڈشیڈنگ) کے باعث معمولات زندگی و کاروبار متاثر ہوتے ہیں۔توانائی سے متعلق مذکورہ بالا دونوں نکات (تفصیلات) پر خاطرخواہ غور نہ ہونے کے باعث صوبائی خودمختاری اور حقوق پر بھی حرف آ رہا ہے اور چھوٹے صوبوں کے وفاق سے گلے شکوو¿ں سے ایک ایسا ماحول نظر آتا ہے‘ جس کے تعمیری پہلو کم ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل (سیف اللہ محب کاکاخیل) نے اِنہی آئینی و قانونی نکات پر مشتمل ایک درخواست کے ذریعے ’عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ)‘ کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی ہے کہ پشاور کے مختلف حصوں ہونے والی گیس لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ خیبرپختونخوا اور پشاور میں ہونے والی گیس کی یہ لوڈشیڈنگ غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام ہے۔ پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ گیس لوڈشیڈنگ کے فوری خاتمے کےلئے ہدایات جاری کرے۔ اِس آئینی درخواست کی بنیاد آئین کی شق 158 ہے جس کے تحت کسی بھی صوبے سے نکلنے والی معدنیات پر پہلا حق وہاں کے مقامی اضلاع کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گیس لوڈشیڈنگ غیرقانونی و غیرآئینی قرار دی جائے۔پشاور اور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ہونے والی گیس لوڈشیڈنگ صرف آئینی پہلو ہی نہیں حق تلفی نہیں بلکہ اِس کے انسانی پہلو بھی ہیں۔ موسم سرما جس شدت کے ساتھ خیبرپختونخوا کے بالائی اور میدانی علاقوں سے ٹکراتا ہے اور بالخصوص ایسے علاقے جہاں گیس ہی ایندھن کا واحد ذریعہ ہے اور اکثریت 100فیصد گیس پر انحصار کرتی ہے وہاں دن کے آغاز اور اختتام سے قبل کئی کئی گھنٹوں پر محیط گیس کی لوڈشیڈنگ سے معمولات زندگی و کاروباری سرگرمیاں صرف متاثر نہیں بلکہ درہم برہم ہو جاتی ہیں۔ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے گیس ملنے کے باوجود بھی اِس پر مکمل انحصار نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے پاس خس و خاشاک کی صورت یا جھاڑیوں کی صورت ایندھن کا ذخیرہ رہتا ہے جسے وہ سارا سال کسی نہ کسی صورت جمع کرتے رہتے ہیں لیکن شہروں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی چھوٹے قطعات ِاراضی پر بنے ہوئے کثیرالمنزلہ مکانات میں لکڑی یا کوئلے کے دھویں کے اخراج کا نظام ہی فن تعمیر کا حصہ رہا ہے۔ قدیم پشاور کے گھروں میں چمنی اور بادگیر ہوا کرتے تھے‘ جن کی خوبصورت مثالیں سیٹھی ہاو¿سز میں محفوظ ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی بودوباش اور تہذیب کی طرح فن تعمیر پر بھی اجنبیت کا رنگ حاوی ہونے لگا اور نتیجہ یہ ہے کہ گیس کے بغیر چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں حالانکہ گیس بطور ایندھن متعارف ہونے سے قبل اچھی خاصی زندگی گزر رہی تھی‘ جسے باسہولت بنانے کی فکر اور چکر نے خوبیوں کو تفکرات اور پریشانیوں سے بدل دیا ہے۔ اہل پشاور اور خیبرپختونخوا کو یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ایندھن کی قلت سے پیدا ہونے والی صورتحال صرف اُنہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک گیر قلت کا حصہ ہے اور پاکستان کو اگر ایک اکائی کے طور پر لیا‘ دیکھا اور سمجھا جائے تو یہی بہتر ہوگا کہ اِس کے جملہ وسائل پر سبھی صوبوں کا یکساں حق تسلیم کیا جائے۔ جہاں تک گیس کی حسب ضرورت (طلب) فراہمی کا تعلق ہے تو فیصلہ سازوں کی جانب سے دردمندی اور احساس کے عملی مظاہرے (بیداری) تک ایندھن کے دیگر اور اُنہی متبادل ذرائع سے استفادہ کرنے کے بارے سوچنا چاہئے‘ جو مصنوعی نہیں حقیقی ہیں اور جن سے کبھی ہمارے گھر بار روشن اور معمولات زندگی کی نبضوں میں حرارت رواں دواں (برقرار و جاری) رہتی تھی۔ سوچئے‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہنس کی چال چل رہے ہیں؟