طب کی تعلیم: اُمید و نا اُمیدی!

 خیبرپختونخوا سمیت ملک کے تمام سرکاری و نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں نئے داخلوں کا جو سلسلہ ماہ¿ ستمبر سے دسمبر کے درمیانی عرصے میں مکمل ہو جایا کرتا تھا‘ اِس مرتبہ مارچ تک طویل کر دیا گیا ہے‘ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت نے طب کی تعلیم اور طب کے شعبے کے نگران اِدارے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کو تحلیل کر کے نیا ادارہ ’پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی)‘ تشکیل دیا ہے۔ تاخیر کی دوسری لیکن اہم وجہ فیصلہ سازوں کی سردمہری اور خاطرخواہ احساس کی کمی ہے‘ جس کے باعث اندرون و بیرون ملک سے مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں داخلے کے خواہشمند طلبا و طالبات اور اِن کے والدین یا سرپرست پریشانی کا شکار ہیں اور اِس پریشانی کا کسی بھی فیصلہ ساز یا حکومتی ادارے کو رتی بھر احساس نہیں۔ ’پی ایم سی‘ کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@PMC_ORG) سے 23 دسمبر کی شب 8 بج کر 37 منٹ پر 3 اعلانات جاری ہوئے۔ 1: نجی میڈیکل کالجوں میں داخلہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے ’19جنوری‘ مقرر کر دی گئی ہے۔ 2: سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے کی آخری تاریخ 22 جنوری مقرر کر دی گئی ہے اُور 3: نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے اہل درخواست گزاروں کی فہرست (میرٹ لسٹ) کا اعلان 24 جنوری کو کیا جائے گا۔ کمپیوٹروں کے زمانے میں جبکہ اہلیت معلوم کرنے کے لئے اعدادوشمار مرتب کرنا زیادہ مشکل (وقت طلب) بھی نہیں رہا لیکن اِس عمل کو غیرضروری طور پر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ طب کی اعلیٰ تعلیم کےلئے سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں کے لئے کل نشستوں کی تعداد کے تناسب سے درخواستیں طلب کی جانی چاہیئں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کل کالجز کی تعداد 167 ہے جن میں 102 میڈیکل اُور 65ڈینٹل کالجز ہیں اُور اِن کالجوں میں سے زیادہ تر صوبہ پنجاب میں ہیں۔ خیبرپختونخوا میں میڈیکل کالجز کی تعداد 17 جبکہ ڈینٹل کالجز کی کل تعداد 6 ہے جن میں مجموعی طور پر 1 ہزار 425 طلبا و طالبات کو نئے تعلیمی سال میں داخلہ دیا جا سکتا ہے۔ ہر سال قریب 2 لاکھ طلبا و طالبات میڈیکل کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ دیتے ہیں اور سال دوہزاربیس میں ہوئے داخلہ ٹیسٹ (MDCAT) اگرچہ نئے نام سے متعارف ہوئے لیکن طلبہ کی تعداد ماضی ہی کی طرح زیادہ رہی۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ 2 لاکھ درخواست گزار جن میں سے اکثریت (80ہزار) کا تعلق پنجاب‘ پچاس ہزار کا تعلق سندھ‘ پینتیس ہزار کا تعلق بلوچستان اُور خیبرپختونخوا سے ہے چاہتے ہیں کہ اُنہیں سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں داخلہ دیا جائے اور یہیں سے اعدادوشمار کے غیرمعمولی حجم اور پیچیدگی کا آغاز ہوتا ہے جس کے باعث اہلیت کی کسوٹی پر ہر طالب علم کو پرکھنے میں وقت لگتا ہے۔ نئے بندوبست (پی ایم سی) کے تحت صوبوں کو داخلوں سے متعلق کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں لیکن اِس سارے عمل میں بہت سارا وقت ضائع ہوا ہے‘ جس سے داخلے کے خواہشمند طلبہ جو پہلے ہی غیرمعمولی مقابلے کی وجہ سے نفسیاتی دباو¿ کا شکار ہوتے ہیں اُمید و نااُمیدی کا شکار ہو کر مایوسیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ دوسری جانب میرٹ لسٹ بنانے والے اہلکاروں پر بھی کم وقت میں زیادہ کام کا دباو¿ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے غلطی کا احتمال رہتا ہے اور آخری وقت میں فیصلوں میں غلطی ہو جاتی ہے جو میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے سر پر لٹکتی ہوئی ایک ننگی تلوار ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے تعلیمی سال (2021ءکے لئے) داخلوں کےلئے ملک گیر سطح پر (سنٹرل) امتحانی نظام متعارف کروایا اُور لازم قرار دیا گیا کہ داخلے کا ہر خواہشمند ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (MDCAT) دے لیکن اِس میں ڈومیسائل کی شرط نہیں رکھی گئی! علاو¿ہ ازیں ضرورت اِس اَمر کی تھی کہ ماضی کے داخلہ ٹیسٹوں میں غلطیوں (کمی بیشی) کا ازالہ کیا جاتا لیکن وہ بھی نہیں کیا گیا۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلے کےلئے درخواست گزاروں کی اہلیت معلوم کرنے کےلئے ایک سے زیادہ امتحانات کیوں لئے جاتے ہیں؟ اگر میٹرک اُور انٹرمیڈیٹ کے درجات میں امتحانی بورڈز کے نتائج کی اہمیت 50فیصد ہے اُور باقی 50فیصد نمبر ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی ٹیسٹ کے ذریعے حاصل سے اخذ کئے جائیں گے تو یہ دنیا اور کس جگہ ایسا ہوتا ہے کہ طلبہ کو پہلے نصاب تعلیم اور پھر ٹیسٹنگ کے نصاب کےلئے تیاری کرنا پڑے کہیں ایسا تو نہیں کہ نجی ٹیویشن سنٹروں اور نجی تعلیمی اداروں کو زیادہ منافع بخش بنانے کےلئے اہلیت کی جانچ کے ایک سے زیادہ پیمانے رکھے گئے ہیں۔ طب کی تعلیم اِس قدر مشکل نہیں جس قدر طب کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے داخلے کے نظام کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔