معاشرے کی ایک ناپسندیدہ رسم

جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے اعظم ورسک کے نیزدیکی گاﺅں میں چند روز قبل ایک گھر کے باہر شدید فائرنگ ہوئی۔ گھر کے مالک بادشاہ گل اور گاﺅں کے لوگوں کاخیال تھا کہ گاﺅں میں دیرینہ دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہوگی۔ اس دوران فائرنگ کا سلسلہ رک گیا اور بادشاہ گل کے دروازے پر کسی نے آواز لگائی کہ اس گھر میں فلاں نام کی جو لڑکی ہے ۔وہ آج سے اس کی ہوگئی ۔ اگر کسی دوسرے شخص نے اس لڑکی سے شادی کی تو وہ اس شخص کو مار دے گا۔لڑکی اور پورے خاندان کو بھی مار دے گا۔ فائرنگ اور آواز دینے والا اسی گاﺅں کا رہنے والا شخص تھا۔ لڑکی کے ماں باپ نے روایت پر سرتسلیم خم کرنے کے بجائے قریبی پولیس سٹیشن جاکر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی اور پولیس نے فائرنگ کرنے والے کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا۔مذکورہ لڑکی کی عمر پندرہ سال بتائی جاتی ہے اس کا رشتہ چند ماہ قبل ایک رشتے دار کے ساتھ طے پایا ہے۔خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سمیت صوبے کے اکثر مقامات پر غگ کی روایت صدیوں سے رائج ہے۔ کوئی شخص کسی کے گھر کے سامنے آکر آواز دے کہ گھر میں موجود فلاں نام کی لڑکی سے وہ شادی کرے گا تووالدین اپنی اس بیٹی کی شادی کسی اور سے نہیں کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ خواہ اس کا رشتہ پہلے سے طے کیوں نہ ہوا ہو۔ آواز دینے والا شخص کب آکر شادی کرے گا۔ اس کا بھی کوئی وقت معین نہیں ہوتا۔ اگر ضد میں آکر والدین بیٹی کی شادی طے شدہ مقام یا کسی اور جگہ کردی تو دونوں خاندانوں میں دشمنی شروع ہوتی ہے اور دونوں طرف سے کئی لوگ مارے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دشمنیاں پالنے کے بجائے اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اور اکثر اوقات غگ کا شکار ہونے والی لڑکی ماں باپ کے گھر بیٹھ کر بوڑھی ہوجاتی ہے۔ غگ یا ژغ نامی اس قبیح رسم کی طرح ملک کے مختلف حصوں میں بیٹیوں کو اپنی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھانے کی رسمیں آج بھی موجود ہیں کچھ لوگ دشمنی ختم کرنے کے لئے کم سن بچی کی مخالف فریق کے کسی بڈھے کے ساتھ شادی کراتے ہیں ۔کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ اورغگ کے نام پر حوا کی بیٹیوں کو مشق ستم بنانے کی رسمیں صدیوں سے رائج ہیں ۔ استحصال پر مبنی ان رسومات کو ختم کرنے کے لئے حکومت، انتظامیہ ، محراب و منبر اور مدارس و جامعات کی طرف سے بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیا۔ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد تعزیرات پاکستان کے قوانین ضم اضلاع میں بھی نافذ ہوچکے ہیں خاصہ دار اور لیویز کو پولیس فورس میں ضم کرکے جگہ جگہ پولیس اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں عدالتیں قائم ہوچکی ہیں ضلع اور تحصیل کی سطح پر سرکاری مشینری فعال ہے۔تعلیم کو فروغ دینے کے لئے بھی پاک فوج اور حکومت کی طرف سے اقدامات شروع کئے گئے ہیں ۔توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں غگ،ژغ، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ جیسی قبیح رسومات کا خاتمہ ہوگا۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگ خود ان غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی رسومات کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان استحصالی رسومات کے خلاف فوج، انتظامیہ، پولیس اور عدالتوں کی مدد حاصل کریں۔جو عمل قرآن اور سنت سے متصادم ہے وہ جائز ہوہی نہیں سکتا۔خواہ وہ ژغ ہو، غگ ہو، شادی بیاہ میںکھانے پینے کی چیزوں کا اسراف ہو، دیکھا جائے تو ان رسومات نے معاشرے کے توازن کو تباہ کردیا ہے کئی خاندان ان رسومات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ہم ان رسومات کو برا سمجھتے ہوئے بھی انہیں اپنانے پر مجبور ہیں۔