محاذ بہت ہیں لیکن ہر کوشش اِس تختہ¿ مشق‘ سخن‘ تجربہ گاہ اور نتیجے کو پہلے سے زیادہ مشکل (پیچیدہ) بنا رہی ہے‘ جس کے باعث ناقابل یقین حد تک بحران ہر طرف پھیلا دکھائی دے رہا ہے۔ اِس حقیقت کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں طب کے ماہرین اور بنیادی سے اعلیٰ تعلیم تک کے عمل کی نگرانی سے متعلق امور ایک مرتبہ پھر جس ’اصلاحاتی تجربے‘ کے دور سے گزر رہے ہیں اُس کا بنیادی نکتہ (حاصل وصول) یہ ہے کہ سارے کا سارا نقصان اُور خسارہ ڈاکٹروں یا ڈاکٹر بننے کے خواہشمندوں (ہم عوام و صارفین) کا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ڈاکٹروں نے ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘کی عدم فعالیت اور اِس شعبے سے وابستہ افراد کی مشکلات کی طرف توجہ دلانے کےلئے احتجاج کیا ہے کیونکہ بقول احتجاجی مظاہرین ”ڈاکٹروںکا مستقبل داو¿ پر لگ گیا ہے۔“ صورتحال کا زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جاری تنازعہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے دور حکومت میں جاری ہے‘جس نے سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے اور عوام کے مفادات کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا لیکن بے یقینی کا جو دور پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کے بطور نگران تعیناتی سے شروع ہوا تھا وہ آج تک ختم نہیں ہو سکا۔ ذہن نشین رہے کہ اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پی ایم ڈی سی معاملات کا ’ازخود نوٹس‘ لیا تھا جس میں میڈیکل کالجوں میں سہولیات کی کمی اور زائد فیسوں کے علاوہ یہ بات بھی شامل تھی کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں سرکاری میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کی تعداد یا اُن میں نشستیں بڑھانے کی بجائے حکومت نے نجی شعبے کو میڈیکل کالجز قائم کرنے کی اجازت دی جبکہ اُن کی نگرانی کے عمل میں قواعد پر عمل درآمد بھی نہیں کروایا اور ظلم پر ظلم یہ ہوا کہ سرکاری میڈیکل کالجوں کے مقابلے نجی میڈیکل کالجوں کی تعداد زیادہ ہونے کے بعد جب کبھی ’پی ایم ڈی سی‘ قواعد کے تحت کوئی نیا ضابطہ متعارف ہوتا یا کسی کالج کے بارے میں شکایات پر کاروائی کرنا ہوتی تو اُس فیصلہ سازی کے عمل میں نجی کالجوں کے زیادہ ووٹ ہونے کی وجہ سے رائے شماری ہمیشہ یک طرفہ رہتی۔ توجہ طلب ہے کہ جس طرح ایک نیا ادارہ بنایا گیا اور دو سال میں اُس کی فعالیت ممکن نہیں ہو سکی تو عین ممکن ہے کہ مستقبل کی کوئی حکومت ’پی ایم سی‘ تحلیل کر کے ’پی ایم ڈی سی‘ پھر سے بحال کر دے اور یوں کہانی وہیں سے شروع ہو‘ جہاں سے اِس نے ایک ڈرامائی موڑ لیا تھا۔ یہ ڈرامائی موڑ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس تھا لیکن اگر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ازخود نوٹس لینے کے بعد بھی طب کی تعلیم و نگران ادارے کو درست نہیں کر سکی تو پھر اِس بات کی اُمید و امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ سیاسی مصلحتوں کے شکار حکمراں کوئی ایسا حل دیں گے‘ جس سے عام آدمی کے مفاد کا تحفظ ہو۔موضوع مسلسل ہے۔ ’طب کی تعلیم: اُمید نااُمیدی (تاریخ اشاعت پچیس دسمبر)‘ کوئی بتلاو¿ کہ ہم بتلائیں کیا (تاریخ اشاعت چھبیس دسمبر) کی ذیل اُس اضطراب کو مخاطب کیا گیا ہے‘ جس کا اظہار سوشل میڈیا اور انفرادی طور پر ہونے کے ساتھ احتجاج کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اِس سلسلے میں رواں ہفتے (چوبیس دسمبردوہزاربیس) اسلام آباد میں طب کے شعبے میں زیرتعلیم طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور وفاقی حکومت کے نام تحریر ’کھلے خط‘ میں کئی سوالات اُٹھائے جن میں شامل ہے کہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ اِس قابل ہی نہیں کہ وہ میڈیکل کالجز کے معاملات چلا سکے‘ جس کی مثال نئے تعلیمی سال کے لئے داخلوں کےلئے اِمتحانات (MDCAT) کا اِنعقاد ہے‘ جس کی تاریخوں میں ردوبدل کرنے کے باوجود بھی صورتحال واضح نہیں کہ نئے داخلوں کا عمل کب مکمل اور نئے تعلیمی سال کا آغاز کب سے ہوگا۔ طلبہ کی جانب سے یہ سوال بھی اُٹھایا گیا ہے (جو کہ منطقی اور جائز ہے کہ) جب چاروں صوبوں میں انٹرمیڈیٹ (ایف ایس سی) سطح کا نصاب تعلیم الگ ہے تو پھر کس بنیاد پر میڈیکل کالجوں کے انٹری ٹیسٹ ملک گیر سطح پر ایک ہی نصاب کے تحت لئے گئے ہیں۔ یہ اعتراض میڈیکل کالجوں کے امتحانات سے قبل بھی اُٹھایا گیا تھا جس کا جواب یہ دیا گیا کہ چاروں صوبوں کے نصاب کو سامنے رکھ کر ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان کا پرچہ تیار کیا گیا ہے لیکن یہ بات طلبہ اور طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبروں کی موجودگی میں ماضی کی طرح اہلیت کا پیمانہ (میرٹ لسٹیں) کیوں نہیں بنائی جا سکتیں۔ آخر ایسی کونسی اہلیت ہے جسے جاننے کےلئے امتحانات کے اوپر ایک اور امتحان کی بدعت متعارف کروا دی گئی ہے جس کی بھاری فیس اور اخراجات وصول کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے نظام تعلیم میں قدم قدم پر امتحانات کا مطلب قدم قدم پر امتحانی فیسیں ہیں اور سرکاری اداروں نے سالانہ اربوں روپے کمانے کیلئے اِس بات کو زیادہ آسان سمجھ لیا ہے کہ وہ امتحانی فیسوں کی صورت عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالیں۔ ضرورت نہ صرف ایم ڈی کیٹ بلکہ دیگر سبھی امتحانات کی فیسوں پر نظرثانی کرنے کی بھی ہے کہ حکومتی اداروں کا کام منافع کمانا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو معیاری سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے اور باوجود بھاری امتحانی فیسیں وصول کرنے کے بھی اگر امتحانی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں تو آسیب کے اِس سائے کا علاج ہونا چاہئے کہ جس میں حرکت تیز تر ہے اُور سفر آہستہ آہستہ!